پہلگام واقعہ: چین کی پاکستان اور بھارت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل
چین نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ’ تحمل کا مظاہرہ ’ کریں، چینی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بیان پہلگام واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 26 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں بیشتر سیاح تھے، ابتدائی طور پر اس واقعے کی ذمے داری ’ کشمیر ریزسٹنس’ ، جسے ’ دی ریزسٹنس فرنٹ ’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نامی تنظیم نے قبول کی تھی مگر بعد میں اس کی تردید کردی تھی۔
بھارت نے کوئی ثبوت پیش کیے بغیر حملہ آوروں کے سرحد پار روابط کا اشارہ دیا، جبکہ پاکستان نے اس حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے، نیز وزیر اعظم شہباز شریف نے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ’ چین امید کرتا ہے کہ دونوں فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے، بات چیت اور مشاورت کے ذریعے متعلقہ اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں گے، کسی سمجھوتے پر پہنچیں گے اور مشترکہ طور پر علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھیں گے۔’
ترجمان چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ’ چین ان تمام اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے جو کشیدگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ ’
واضح رہے کہ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بیان پاکستانی اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے۔
پہلگام حملے کے بعد بھارتی افواج نے ملک بھر میں کئی فوجی مشقیں کی ہیں، رائٹرز نے ایک دفاعی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ ان میں سے کچھ معمول کی تیاری کی مشقیں ہیں۔
خیال رہے کہ پہلگام حملے کےبعد، جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں۔
بھارت نے 23 اپریل کو یکطرفہ طور پر اہم سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو معطل کر دیا، یہ پانی کی تقسیم کا ایک معاہدہ ہے جو عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا اور پاکستان اور بھارت کے جنگوں اور دہائیوں کی دشمنی کے باوجود برقرار رہا ہے۔
بھارتی اعلان کے اگلے ہی روز پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شملہ معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی دی اور بھارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی۔
اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) نے بھی بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ بلیم گیم اور پہلگام جیسے واقعات کا اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذموم استعمال کرنے سے باز رہے۔’
جمعرات کو ہندو قوم پرست بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں کا ’ زمین کے آخری کنارے تک ’ پیچھا کرنے کا عزم کیا اور کہا کہ جنہوں نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی اور اسے انجام دیا ’ انہیں ان کے تصور سے بھی بڑھ کر سزا دی جائے گی۔’
بھارتی سیاستدانوں اور دیگر کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے مطالبات بھی بڑھ گئے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ پاکستان پہلگام حملے کی بین الاقوامی تحقیقات میں ’ تعاون کرنے کے لیے تیار’ ہے، لیکن انہوں نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر کوئی حملہ کیا تو ’ مکمل جنگ’ ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ نے روایتی حریفوں پر ’ زیادہ سے زیادہ تحمل ’ کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے تاکہ مسائل کو ’معنی خیز باہمی مشغولیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔‘
علاوہ ازیں، سابق وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج کہا کہ اگر بھارت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے، تو ’ اسے پاکستان سے بات چیت اور مذاکرات کرنے پر راضی ہونا چاہیے۔’
ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے ساتھ ایک انٹرویو میں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ’ ہم دہشت گردی سے نمٹنا چاہتے ہیں، اور ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔’
بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان نے اس واقعے کی کسی بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا حصہ بننے کی پیشکش کی ہے، اور کہا کہ پاکستان ’ سچائی کو سامنے لانا ’ چاہتا ہے۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ پاکستان بھارت کے اندر ہر سیکورٹی ناکامی کے لیے مودی حکومت کی جانب سے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے تنگ آ چکا ہے۔’
امریکا کا بھارت اور پاکستان سے رابطہ، ’ذمہ دارانہ حل‘ کی طرف بڑھنے پر زور
پاکستان اور بھارت سے چین کی جانب سے تحمل کے مظاہرہ کی اپیل اتوار کے روز امریکا کے بیان کے بعد سامنے آئی، جس میں بھارت اور پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ایک ’ ذمہ دارانہ حل’ کی جانب بڑھنے کی کوشش کریں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے رائٹرز کو ایک ای میل بیان میں بتایا کہ ’ یہ ایک بدلتی ہوئی صورتحال ہے اور ہم پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، ہم بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ متعدد سطحوں پر رابطے میں ہیں۔’
ترجمان نے مزید کہا کہ ’ امریکا تمام فریقین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ مل کر ایک ذمہ دارانہ حل کی جانب بڑھیں ۔’
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن ’ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کی سخت مذمت کرتا ہے’ ، انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے حالیہ بیانات سے ملتے جلتے تبصروں کا اعادہ کیا۔
امریکی حکومت نے پہلگام حملے کے بعد، عوامی سطح پر بھارت کی حمایت کا اظہار کیا لیکن پاکستان پر تنقید نہیں کی، جبکہ سعودی عرب اور ایران نے ثالثی کی پیشکش کی ہے، ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان ’ حل ڈھونڈ نکالیں گے۔’
بھارت، امریکا کے لیے تیزی سے اہمیت اختیار کرتا ہوا شراکت دار ہے کیونکہ واشنگٹن کا مقصد ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے جبکہ پاکستان اب بھی ایک امریکی اتحادی ہے، اور 2021 میں ہمسایہ ملک افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد واشنگٹن کے لیے اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔
واشنگٹن میں مقیم جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار اور فارن پالیسی میگزین کے قلم کار مائیکل کگل مین نے کہا کہ بھارت اب پاکستان کے مقابلے میں امریکا کا بہت قریبی شراکت دار ہے۔
مائیکل کگل مین نے رائٹرز کو بتایا کہ’ اس سے اسلام آباد کو تشویش ہو سکتی ہے کہ اگر بھارت نے فوجی انتقامی کارروائی کی تو امریکا اس سے ہمدردی کرتے ہوئے اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش نہیں کرے گا۔’
کگل مین نے یہ بھی کہا کہ یوکرین میں روس کی جنگ اور غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی میں واشنگٹن کی شمولیت اور جاری سفارتی کوششوں کے پیش نظر، ٹرمپ انتظامیہ ’ عالمی سطح پر بہت سے معاملات سے نمٹ رہی ہے ’ اور کم از کم کشیدگی کے ابتدائی ایام میں بھارت اور پاکستان کو ان حال پر چھوڑ سکتی ہے۔
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کے سینئر فیلو حسین حقانی نے بھی کہا کہ امریکا اس وقت کشیدگی کم کرنے میں دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دے رہا۔
حسین حقانی نے مزید کہا کہ ’ بھارت کو سرحد پار سے کی جانے والی یا سرحد پار کی حمایت سے ہونے والی دہشت گردی کا دیرینہ گلہ ہے، دوسری جانب پاکستان کو یقین ہے کہ بھارت اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے، دونوں ممالک ہر چند سال بعد ایک جنون میں مبتلا ہو جاتے ہیں، مگر اس بار، امریکا کی کشیدگی کم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔’
سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہلکار نیڈ پرائس نے کہا کہ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ اس مسئلے کو قرار واقعی اہمیت دے رہی ہے، لیکن یہ تاثر کہ وہ کسی بھی قیمت پر بھارت کی حمایت کرے گی، مزید کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔’
نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ ’ ٹرمپ انتظامیہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکا-بھارت شراکت داری کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، اور وہ ایسا تقریباً کسی بھی قیمت پر کرنے کو تیار ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ ’ اگر بھارت یہ محسوس کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ہر حال میں اس کی بھرپور حمایت کرے گی، تو پھر ہم ان جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایوں کے درمیان مزید کشیدگی اور مزید تشدد دیکھ سکتے ہیں۔’
بھارتی فورسز کا کریک ڈاؤن جاری، 2000 افراد زیرحراست
دریں اثنا، بھارتی فوجیوں نے پہلگام حملے کے بعد سے حریت پسند کشمیریوں کے 9 گھر دھماکا خیز مواز سے مسمار کردیے ہیں اور تقریباً 2000 افراد کو حراست میں لے لیا ہے، جس سے عوام میں طیش کی لہر دوڑ گئی ہے اور بھارتی فوج پر ’ اجتماعی سزا ’ کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
ایک سینئر پولیس افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس نے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کردی ہیں اور پوچھ گچھ کے لیے 2 ہزار کے لگ بھگ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہ ہونے کے باعث پولیس افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ جاری تحقیقات کی وجہ سے تھانے میں لوگوں کی بڑی تعداد کا آنا جانا لگا ہوا ہے۔’
پولیس افسر نے مزید کہا کہ ،’ کچھ افراد کو پہلے ہی چھوڑ دیا گیا ہے، اور مزید کو تھانوں میں طلب کیا جا رہا ہے،’ پولیس افسر نے اصرار کیا کہ یہ گرفتاریاں نہیں ہیں، ان لوگوں کو صرف ایسی معلومات حاصل کرنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے جن سے دہشت گردوں تک پہنچا جاسکے۔
ایک مقامی پولیس افسر نے پیر کو رائٹرز کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں حملہ آوروں کی تلاش میں تقریباً 1000 گھروں اور جنگلات کی تلاشی لی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے احتیاط برتنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ حکومت کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں بے گناہ افراد کو نقصان نہ پہنچے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ہفتے کے روز اپنے ’ ایکس ’ اکاؤنٹ پر لکھا، ’ یہ وقت ہے کہ… کسی بھی غلط کارروائی سے بچا جائے جو لوگوں کو متنفر کردے، قصورواروں کو سزا دیں، ان پر کوئی رحم نہ کریں لیکن اس دوران بے گناہ لوگوں کو کسی بھی نقصان کا شکار ہونے سے بچائیں۔ ’
ایک اور سابق وزیر اعلیٰ نے بھارتی حکومت سے اپیل کی کہ ’ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بے گناہ لوگوں کو اس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے کیونکہ لوگوں کے متاثر ہونے سے دہشت گردوں کے تقسیم اور خوف کے اہداف کے حصول میں مدد ملے گی۔’
مقبوضہ کشمیر کے ایک وفاقی قانون ساز آغا روح اللہ نے کہا کہ’ کشمیر اور کشمیریوں کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔’














لائیو ٹی وی