• KHI: Asr 5:08pm Maghrib 7:09pm
  • LHR: Asr 4:49pm Maghrib 6:51pm
  • ISB: Asr 4:57pm Maghrib 7:01pm
  • KHI: Asr 5:08pm Maghrib 7:09pm
  • LHR: Asr 4:49pm Maghrib 6:51pm
  • ISB: Asr 4:57pm Maghrib 7:01pm

پاک بھارت کشیدگی کا نیا تباہ کن پہلو

شائع April 29, 2025

ایک جانب جہاں پاکستان اور بھارت فوجی کشیدگی کے تازہ مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، وہیں دوسری جانب کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس بار حالات ماضی کی نسبت زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں نوم چومسکی کے 12 سال قبل کہے گئے الفاظ ذہن کے پردے پر اُبھرتے ہیں۔

2013ء میں اپنی کتاب ’نوکلیئر وار اینڈ انوائرمینٹل کیٹسٹروف‘ میں نوم چومسکی نے متنبہ کیا تھا کہ ’ہماری نسلوں کو بقا کے لیے دو اہم مسائل لاحق ہیں، ایک جوہری تنازع جبکہ دوسرا ماحولیاتی تباہی‘۔

اس جملے میں شامل جوہری تنازع اور اس کے سنگین خطرے سے تو سب ہی واقف ہیں لیکن بڑے پیمانے پر یہ شعور نہیں کہ ماحولیاتی تباہی کا پہلو کس قدر تشویش ناک ہے۔ یہ بالخصوص جنوبی ایشیا کے لیے اہم ترین مسئلہ ہے جہاں بڑھتی ہوئی شہرکاری کے مسائل کا سامنا خطے کے دریا کررہے ہیں، بڑے بڑے ڈیمز پانی کے بہاؤ کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں جبکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پہاڑوں پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ہی مشترکہ طور پر سیلاب اور خشک سالی کے چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر بھی تنازع کھڑا ہوگا تو یہ ایک مہلک بحران کی صورت اختیار کرلے گا۔

اس کے علاوہ کشمیر جس کے دعوے دار دو نہیں بلکہ تین ممالک ہیں، گزرتے وقت کے ساتھ تباہ کُن سیلابوں کا مرکز بن چکا ہے اور اب سیلابوں کا وہ موسم بھی دور نہیں ہے۔ سانحہ پہلگام انتہائی لرزہ خیز تھا لیکن اسے جواز بنا کر طبلِ جنگ نہیں بجایا جاسکتا اور نہ ہی پانی کی تقسیم کو ہتھیار بنا کر یا نفرت پھیلا کر مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب دنیا اسرائیل اور ایران کے درمیان ممکنہ طور پر تباہ کُن تنازع کی بھی شاہد ہے جس میں دونوں ہی فریق دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جنگ اور متوقع ناقابلِ بیان نقصانات اٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن ایران کی سب سے بڑی کمزوری بھی شاید امریکا اور اسرائیل کے اتحاد کا طاقتور ہتھیار ثابت نہ ہو۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس اتنی عسکری قوت ہے کہ وہ اپنے روایتی ہتھیاروں سے اسرائیل کو بھاری نقصان سے دوچار کرسکتا ہے۔

مگر ایران کا وہ سب سے بڑا مسئلہ جس پر بہت کم ہی بات کی جاتی ہے وہ اس کا اندرونی ہے۔ ایران پانی کے بحران کا شکار ہے۔ اگر امریکا سے بات چیت کے ذریعے امن قائم ہوجاتا ہے تو ایران کی قیادت کو اس سنگین بحران سے نبردآزما ہونا ہوگا کیونکہ یہ ایک بڑی سیاسی پریشانی کا باعث بنا سکتا ہے۔ دریائے ہیلمند پر افغانستان کے ساتھ بھی تنازع اپنی جگہ برقرار ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے اندرونِ خانہ ہجرتیں دیکھنے میں آئی ہیں اور لوگ شمالی صوبوں اور تہران کے اردگرد شہروں میں منتقل ہورہے ہیں۔

1980ء کی دہائی میں فارسی نژاد بھارتی سفارتکار اکبر خلیلی تہران سے دہلی جارہے تھے کہ جب انہوں نے دبئی کے لیے ایک تبصرہ کیا جو ہمہ وقت مضحکہ خیز اور سخت تھا۔ میں ان دنوں دبئی میں ایک اخبار کے ساتھ منسلک تھا، انہوں نے کہا، ’تم اس پانی کی معیشت والے ملک میں کیا کررہے ہو؟‘ اکبر خلیلی مذاق کررہے تھے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ کس طرح قدیم تہذیبیں جیسے ایران اور بابل قدرتی پانی کے ذخائر کے اردگرد آباد ہوئی تھیں۔

ماضی میں پانی پر تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ ایران اور عراق کے درمیان بھی شط العرب پر تنازع رہ چکا ہے۔ اسرائیل نے 1967ء میں عرب فوجوں کو شکست دے کر اپنی پانی کی ضروریات کو پورا کیا اور اس کے بعد شام کے گولان ہائٹس تک اپنا قبضہ پھیلایا جوکہ پانی کے وسائل سے مالامال سمجھا جانے والا خطہ ہے۔ گولان ہائٹس پر قبضے سے وہ اس قابل ہوا کہ وہ دنیا بھر میں اپنے مقبول برانڈ ’کوشیر وائن‘ کی برآمدات کرتا ہے۔ ایک اور عظیم تہذیب سے وجود میں آنے والا مصر بھی دریائے نیل پر کنٹرول کے معاملے میں سوڈان اور ایتھوپیا کے ساتھ تناؤ کا شکار ہے۔

نوم چومسکی نے اپنی کتاب میں کہا، ’اگرچہ ایٹمی حملے کے بعد جوابی کارروائی ضروری ہوجاتی ہے لیکن ماحولیاتی تباہی تو آتی ہی اسی وجہ سے ہے کہ ہم انسان اپنی خود ساختہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتے‘۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’مسائل کو نظرانداز کرنا تو محض صرف ایک پہلو ہے۔ دیگر نقصان دہ وجوہات میں کاربن کے ذخائر کو نکالنے کے لیے انتہائی تکنیکوں کا استعمال، بائیو فیول کے لیے زرعی زمینوں کا خاتمہ، ڈیمز کی تعمیر اور جنگلات کی تباہی شامل ہیں جوکہ کاربن جذب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت یہ تمام کام کررہے ہیں۔

’گویا گلیشیئرز پگھلنے کا بحران ہمارے لیے کافی نہیں تھا جو اب ہمیں پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی جیسے مسائل سے بھی نمٹنا ہوگا جس سے خطہ مزید غیر مستحکم ہوگا۔ ہمیں اپنی بقا کو لاحق مسائل سے مل کر مقابلہ کرنا ہوگا اور نئے مسائل پیدا کرنے کے بجائے وجودی مسائل کے حل تلاش کرنا ہوں گے‘، یہ کہنا تھا پاکستان کی مایہ ناز ماہرِ ماحولیات عائشہ خان کا جو ایکس پر بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے پانی کا رخ موڑنے کے بھارتی مذموم ارادے کے حوالے سے تبصرہ کررہی تھیں۔

خوش قسمتی سے اگر بھارت یہ مذموم ارادہ رکھتا بھی ہے تو مستقبل قریب میں ایسا ہونے والا نہیں۔ ردعمل کے طور پر پاکستان نے بھارت کو خبردار کردیا ہے کہ پاکستان کے پانی کا رخ موڑنے کی اگر کوئی بھی کوشش کی گئی تو اسے اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔ ابھی کے لیے بھارت کی دھمکی صرف نظریاتی ہے۔ اس پر اتنی لاگت اور وقت صرف ہوگا کہ بھارت کو اپنی دھمکی کو حقیقت کا روپ دینے میں کم از کم دو دہائیوں کا وقت لگے گا۔

اسی دوران دونوں فریق اگر مذاکرات کی میز پر واپس آتے ہیں تو امن کے قیام کے لیے ایک اور موقع مل سکتا ہے۔ دی وائر کے ایک مضمون میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان معاہدے کی معطلی کو چیلنج کرنے کے لیے معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھی لے کر جاسکتا ہے۔

پاک-بھارت موجودہ کشیدگی کا ایک اور پریشان کُن پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں فریق اپنی دشمنی میں مذہب کا استعمال کررہے ہیں۔ دیگر جنگی علاقوں میں جو کچھ ہورہا ہے، پاکستان اور بھارت کی صورت حال اسی سے مماثل ہے۔ ایک حریف مشتعل ہے جبکہ دوسرا تیاری کررہا ہے۔

مثال کے طور پر یوکرین اور روس کے درمیان جنگ میں بھی مذہب کی تقسیم ہوئی۔ گزشتہ سال اگست میں یوکرین نے روس سے منسلک تمام مذہبی گروپس پر پابندی لگانے کا قانون منظور کیا۔ اس فیصلے کا مقصد یوکرینی آرتھوڈکس چرچ کو نشانہ بنانا تھا جس پر حکومت نے الزام لگایا کہ اس نے حملے میں روس کی مدد کی تھی۔

اسرائیل میں بنیامن نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں نے فلسطینیوں کے لیے بائبل کی قدیم زبان میں موجود ’Amaleks‘ لفظ استعمال کیا جس کا مطلب اسرائیل کے ایسے دشمن ہیں جو تباہی کے مستحق ہیں۔ بعدازاں نیتن یاہو نے نفرت آمیز بیان کی وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی وضاحت کسی طور بھی قابلِ یقین نہ تھی۔

پہلگام میں 26 ہندو سیاحوں کے بےرحمانہ قتل جن کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہیں مسلمان حملہ آوروں نے نشانہ بنایا، کے بعد بھارت سے بدلہ لینے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ اسی اثنا میں وہ بھارت میں مقیم مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

جموں اور کشمیر کی اسمبلی کو میڈیا بالخصوص چند ٹی وی چینلز کے خلاف مذمتی قراردار منظور کرنا پڑی جو غیرمہذب رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس مذہبی تناؤ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے رامائن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بادشاہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی رعایا کو برے دشمن سے بچائے۔

پاکستان میں کچھ حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندو اور مسلمان پُرامن انداز میں ساتھ نہیں رہ سکتے۔ لیکن اگر یہ واقعی سچ ہوتا تو قائداعظم کبھی بھی پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی سختی سے مخالفت نہ کرتے۔ انہوں نے تصور کیا تھا کہ جس ملک کا خواب انہوں نے دیکھا ہے اس میں ان خطوں میں آباد غیر مسلمانوں کو پاکستان کا مساوی شہری سمجھا جائے گا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 مئی 2025
کارٹون : 13 مئی 2025