دو جوہری طاقتوں میں تناؤ کا نیا مرحلہ، دنیا کے لیے کتنا تباہ کن ہوسکتا ہے؟
7 مئی کے ’آپریشن سندور‘ کے بعد سے جنوبی ایشیا کے دو سخت حریف تباہی سے صرف ایک قدم دور ہیں کہ گویا وہ تیز دھاری تلوار کی نوک پر توازن قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ایک ہی دن میں نئی دہلی کی جانب سے پاکستان کے 6 مقامات پر علی الصبح حملوں اور اسلام آباد کی جانب سے 5 بھارتی جنگی طیارے گرائے جانا، جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایوں کو اشتعال انگیزی اور انتقامی کارروائی کے نہج پر لے آئی ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس نے 22 اپریل کے پہلگام حملے میں مبینہ طور پر ملوث دہشتگرد تنظیم کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن اس کے حیلے بہانے کے پیچھے وسیع تر عزائم واضح ہیں۔ وہ اپنے علاقائی تسلط کا دعویٰ کرنے اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی ’نئی حدود متعین‘ کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر اپنے عروج کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔
نئی دہلی ایسے شواہد منظرعام پر نہیں لا سکا ہے جو پاکستان کو حملے سے منسلک کرے اور نہ ہی اس نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی بین الاقوامی آوازوں پر کان دھرا ہے۔ اس کے بجائے بھارتی رہنماؤں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ’نئی حدود‘ متعین کرنے کی کوشش کی۔ ایسی حدود جن میں پاکستان پر حملے میں پہل اور اسے سزا دینا، پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔
بھارتی میڈیا نے بعدازاں سرکاری دعووں کی بنیاد پر کہا کہ بہاولپور میں شہید ہونے والوں کا تعلق مسعود اظہر کی جیشِ محمد سے تھا جس سے بھارت کے اس بیانیے کو تقویت ملی کہ یہ حملے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر کیے گئے۔
سنگاپور کے ایس راجا رتنم اسکول کے بین الاقوامی سینٹر برائے سیاسی تشدد اور دہشتگردی کی تحقیق کے فیلو عبدالباسط نے کہا، ’کسی معتبر میڈیا آؤٹ لیٹ نے اب تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن اگر واقعی ان (مسعود اظہر) کے خاندان کے افراد مارے گئے ہیں تو یہ پاکستان کے اس بیانیے کے لیے دھچکا ہے جو کہتا ہے کہ جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ ختم ہوچکی ہیں۔ اس سے ایک بار پھر جہادی پراکسیز کی حمایت کے حوالے سے ممکنہ خدشات سر اٹھائیں گے جس میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پابندیاں دوبارہ عائد ہونے کے خطرات بھی شامل ہیں‘۔
پاکستان نے بھارتی حملوں کا بروقت جواب دیتے ہوئے اپنے دفاع کے حق کا استعمال کیا اور جدید ترین رافیل طیاروں سمیت 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے۔ پیغام انتہائی واضح تھا، کوئی بھی لڑاکا طیارہ خواہ وہ کتنا ہی جدید کیوں نہ ہو، ناقابلِ تسخیر نہیں ہے۔
تمام تر دھمکیوں اور جارحانہ گفتگو کے باوجود دونوں ممالک کو ادراک ہے کہ اصل خطرہ مزید بڑھتا جارہا ہے۔ بھارت پاکستان پر تسلط چاہتا ہے جبکہ پاکستان، بھارت کی نئی حدود متعین کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔
دونوں حریفوں نے زیادہ سے زیادہ قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن وہ اس حقیقت سے غافل نہیں ہیں کہ اگر وہ زیادہ آگے بڑھتے ہیں تو انہیں مشترکہ طور پر تباہی کا سامنا ہوگا۔ ان کے اقدامات کو جوہری خطرے کی بیڑیوں نے جکڑا ہوا ہے اور یہ خطرہ کسی تلوار کی مانند ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے جس کی بنیاد پر وہ باقاعدہ جنگ لڑنے سے کترا رہے ہیں۔
دونوں فریقین کے ممکنہ اگلے قدم کے حوالے سے سوال پر سابق سیکریٹری جنرل یٰسین ملک کا ماننا ہے کہ حالات کو ایٹمی جنگ کے نہج تک پہنچانے سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کو زمینی کارروائیوں یا حساس اہداف کو نشانہ بنا کر ریڈ لائن عبور کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’اس کے لیے وہ فضائی تصادم یا میزائل وار فیئر کو ترجیح دیں گے‘۔
اسٹریٹجک وژن انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ بریگیڈیئر نعیم ملک نے خبردار کیا ہے پاکستان کی جوابی کارروائی پر بھارت کا ردعمل دونوں فریقین کو مزید کشیدگی کی جانب دھکیل دے گا۔ انہوں نے متنبہ کیا، ’اس تمام معاملے میں سے خطرناک امکان نادانستہ طور پر حساس ہدف کو نشانہ بنانا ہوگا جس کے نتیجے میں کشیدگی میں تیزی سے شدت آئے گی‘۔ اسلام آباد نے اب تک یہ حدود عبور کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے۔
ایک پاکستانی سینئر اہلکار نے پسِ پردہ بات کرتے ہوئے کہا، ’اگر دونوں ممالک کے درمیان موجودہ حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔ پاکستان نے بھڑکائے جانے کی کوششوں کے باوجود تحمل سے کام لیا ہے اور مزید کشیدگی سے گریز کیا ہے‘۔
رافیل طیارے گرائے جانا صرف بھارت کے وقار پر ضرب نہیں ہے بلکہ اس سے بھارت سے بدلہ لینے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ اگر پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد بھارت دوبارہ حملہ کرتا ہے تو پاکستان کو زیادہ مضبوط جواب دینا ہوگا۔ اورایک بار یہ بدلہ لینے کا سلسلہ چل پڑا تو عوام جوہری تنازع کے امکانات کے حوالے سے خدشات میں مبتلا ہوجائیں گے۔
اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کی بھرپور حمایت سے حکومت اپنی کارروائیوں کو بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کے حق کے بیانیے کو استعمال کررہی ہے۔ لیکن میدانِ جنگ میں حاصل ہر فتح کا ردعمل ہوتا ہے۔ دباؤ بڑھانے کی کوششیں جاری رہتی ہیں جوکہ دونوں حریفوں کو جنگ کے نہج تک لاسکتی ہیں۔
دوسری جانب واشنگٹن سے بیجنگ حتیٰ کہ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے سفارتکاروں نے اشتعال کم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان جتنی گہری بداعتمادی ہے، اسے محض فون کالز یا بیک چینلز پیغامات کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی ثالث ہمیشہ بہت دیر سے مداخلت کرتے ہیں یا کرتے بھی ہیں تو احتیاط سے کام لیتے ہیں تو ایسے میں اصل کنٹرول دہلی اور اسلام آباد کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں یا محتاط رہتے ہیں۔
سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے اس شدید غیرمستحکم ماحول میں کشیدگی کم کرنے پر زوردیا حالانکہ یہ انتہائی مشکل ہوگا اور ساتھ ہی انہوں نے بااثر ممالک پر زور دیا کہ ’وہ منصفانہ طریقے سے اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کریں‘۔
انہوں نے کہا، ’اگرچہ بھارتی جارحیت کی مذمت کی جارہی ہے اور اقوامِ متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت پاکستان کو جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے، لیکن بااثر ممالک کو اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے بھارت کو اشتعال انگیزی سے باز رہنے اور جارحانہ اقدامات روکنے پر آمادہ کرنا ہوگا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ممالک کو صرف بحران کو قابو کرنے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی بلکہ انہیں بھارت پر تنازع کے حل کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا۔
دونوں ممالک انتہائی خطرناک ڈگر پر چل رہے ہیں جہاں وہ صریح تنازع میں پڑے بغیر قوت کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔ دونوں کو امید ہے کہ جب ان کے لیے درست وقت ہوگا وہ اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے لیکن تاریخ ہمیں باور کرواتی ہے کہ ایسے پیچھے ہٹنا محض وقتی ہوتا ہے اور چھوٹی سی کوتاہی سے بدلہ لینے کا یہ سلسلہ بڑے تنازع کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں عسکری کارروائی سے شاید تحمل کی راہ ہموار ہو یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں اتنی تیزی سے تصادم و کشیدگی کی جانب بڑھیں کہ سفارتی طریقے سے بھی دونوں کو رُوک پانا مشکل ہوجائے۔ دونوں صورتوں میں دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دونوں ایٹمی ہمسایے جنگی نہج پر ہیں اور اب غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تباہی سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ دونوں فریقین نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ جائیں۔
اس کے علاوہ رافیل سمیت 5 جنگی طیارے گرائے جانا بھارت کے عسکری وقار کے لیے دھچکا ہے اور اس سے مغرب میں بھارت کی ’نیٹ سیکیورٹی پرووائڈر‘ کے طور پر خدمات انجام دینے کی صلاحیت کے بارے میں بحث کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادی بھارت کو چین کا متوازی سمجھتے ہیں۔ ایک دن میں 5 طیارے گنوا دینا، پھر چاہے سے وہ فاصلے سے نشانہ بنایا جانا کیوں نہ ہو، اس نے مغربی ٹیکنالوجی کو سنبھالنے کی بھارتی صلاحتیوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں اسٹیمسن سینٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام کے فیلو کرسٹوفر کلیری نے کہا، ’امریکا امید کر سکتا ہے کہ بھارت میں ان غیرملکی عسکری ہتھیاروں کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لیں جوکہ امریکی ساختہ نہیں۔ امریکا یہ بھی جاننے میں دلچسپی دکھائے گا کہ اس تنازع میں چینی ساختہ فضا سے فضا میں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلز نے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔