’پاک -بھارت روایتی جنگ میں طاقت کا نیا توازن مستقبل میں تنازعات کو روکے گا‘

شائع May 11, 2025

پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی تصادم اور میزائل حملوں کی وجہ سے کشیدگی جاری تھی کہ ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انٹری ہوئی اور انہوں نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم سے اعلان کیا کہ جنوبی ایشیا کے ایٹمی ہمسایوں نے امریکا کی ثالث میں’مکمل اور فوری’ جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے۔

ٹرمپ کے اعلان سے گھنٹوں بلکہ چند منٹ پہلے تک بھارت کی جانب سے پاکستان میں شہری آبادی کو نشانہ بنانے اور فوجی تنصیبات پر میزائل داغے جانے کے بعد پاکستان کی بھرپور جوابی کارروائی میں بھارت کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اس تمام تر پیش رفت کے بعد کشیدگی میں شدت آنے کے خدشات بڑھ رہے تھے۔

اس وقت جب حالات انتہائی سنگین موڑ پر تھے تب ایک بات یقینی تھی کہ بھارت اب ایک نیا معمول بنا لینا چاہتا ہے کہ جہاں وہ جب چاہے کشمیر میں اپنی سلامتی اور انٹیلی جنس ناکامی پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس کے علاقوں پر حملہ کرے گا۔

اس ہفتے کے آغاز میں پاکستان پر میزائل حملے کے بعد بی وی آر (بصری حد سے باہر) ہتھیاروں کے ساتھ فضائی تصادم میں گرائے گئے پانچ بھارتی جنگی طیاروں میں سے دو یا تین فرانسیسی ساختہ رافیل جیٹ طیارے بھی تھے۔

اہم بات یہ ہے کہ ہر رافیل طیارے کی مالیت 250 ملین ڈالرز سے زائد ہے۔ اس جدید ترین طیارے کا مقصد جنگی قوت میں اضافہ ہے لیکن وہ اپنی طاقت دکھانے میں ناکام رہا کیونکہ اسے پاک فضائیہ کے ہتھیاروں کے نظام نے شاندار مہارت اور مؤثر طریقے سے ناکارہ بنا دیا تھا۔

طیارے گرانے کی پاک فضائیہ کی مہارت نے دفاعی اور جدید فضائی جنگ کے ماہرین کو شدید حیرت میں مبتلا کیا۔ عالمی میڈیا پر ایک سرسری نظر بالخصوص دفاع سے متعلق اشاعتوں/ ویب سائٹس اس دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے کہ پاک فضائیہ نے کس طرح چین کے فراہم کردہ عسکری اثاثوں کو مہلک انداز میں استعمال کیا۔

شاید بھارت کو جس سبکی کا سامنا ہوا، اس نے کشیدگی کم کرنے کے عمل کو مزید مشکل بنادیا تھا۔ بھارت پیچھے ہٹنے کی بات کررہا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس نے 10 مئی کو رات گئے پاکستان کی ایئر بیسز کو نشانہ بنایا جس نے پاکستان کو جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ پاکستان کی جانب سے اس جوابی حملے میں میزائل داغے گئے اور منظم فضائی آپریشن میں بھارتی فضائیہ کے بیس پر نصب روسی ساختہ فضائی دفاعی نظام ایس 400 سمیت متعدد اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

نئی دہلی میں ایک میڈیا بریفنگ میں بھارت کی فوجی ترجمان نے اپنے تین اڈوں کو ’محدود نقصان‘ پہنچنے کا اعتراف کیا جبکہ ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ تناؤ نہیں چاہتے۔ جب یہ بریفنگ ہورہی تھی تب حیدرآباد کے قریب سندھ میں فضائیہ کے ایک اڈے پر دھماکا خیز ڈرون حملے کی تصدیق ہوئی جس میں شہادتوں اور لوگوں کے زخمی ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا۔

اس نے خدشات کو جنم دیا کہ کیا پاکستان بھی بڑھتے تصادم میں جوابی کارروائی کرے گا؟ تیزی سے بگڑتے عسکری تنازع میں بعض اوقات اندازے غلط ثابت ہوسکتے ہیں جس کے غیر متوقع نتائج سامنے آتے ہیں اور یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ دونوں ممالک کے پاس تقریباً 300 ٹیکٹیکل اور اسٹریٹجک جوہری وار ہیڈز ہیں اور اسے لانچ کرنے کے مختلف نظام بھی موجود ہیں۔

ممکنہ ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹلنے پر جنوبی ایشیا یا دنیا نے سکون کا سانس لیا ہے مگر اس کے بعد بہت سے ذہنوں میں ایک سوال اُبھر رہا ہے۔ کیا مستقبل میں بھی کئی دہائیوں کی طرح بھارت میں ہونے والے کسی بھی دہشتگرد حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر توپوں کا رخ سرحدوں کی جانب موڑ دیا جائے گا اور فوج تعینات کرکے جنگ کی دھمکیاں دی جائیں گی حتیٰ کہ کشیدگی میں کمی نہ آجائے گی؟

بہت سے پاکستانی اور مجھے یقین ہے کہ بہت سے بھارتی بھی ہر چند سال بعد ہونے والی اس تکرار کے عادی ہوچکے ہوں گے۔ لیکن 2019ء میں بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پلوامہ حملے سے پیدا ہونے والی کشیدگی جس میں نیم فوجی دستوں کے درجنوں فوجی ہلاک ہوئے تھے، بھارت کا پہلا ردعمل پاکستان کی سرزمین پر ’جوابی‘ حملہ کرنا تھا لیکن پاک فضائیہ نے اس کا بھرپور جواب دیا تھا اور بھارتی جنگی جہاز کو مار گرانے اور ان کے پائلٹ کی گرفتاری کی پہلی مثال قائم کی تھی۔

تاہم آزاد کشمیر سے ملحقہ بالاکوٹ کے جنگلاتی علاقے پر جہاں اکثر تصادم ہوتے رہتے ہیں، حملہ کرنا اور اسے اپنی فتح قرار دینا ایک بات تھی لیکن پہلگام میں گزشتہ ماہ کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اس ہفتے پاکستان کے اندرونی شہری علاقوں پر میزائل حملے بہت زیادہ سنگین عمل تھا۔

لیکن لگتا ہے یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے نئے معمول بنانے کے اس فعل کی مزاحمت کرنے کے لیے پاکستان پُرعزم تھا۔ جدید ترین جنگی طیارے کھو دینے کی شرمندگی کی وجہ سے بھارت نے پاک فضائیہ کے ایئر پیسز پر میزائل داغے۔ اور پاکستان جو تیار تھا، اس نے حملہ کیا اور جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ اسی جوابی حملے نے بھارت کو جنگ بندی کے لیے آمادہ ہونے پر مجبور کیا۔

بہت سے بھارتیوں کو ’مجبور‘ کا لفظ ناگوار گزرے کیونکہ یہ اس کے بالکل برعکس ہے جو وہ اپنے حکومت کے زیرِ تسلط میڈیا میں سن رہے ہیں اور مختلف پابندیوں کا شکار سوشل میڈٰیا پر جو دیکھ رہے ہیں۔ لیکن انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ ان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے کیا مؤقف اپنایا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان اور دونوں ممالک کو ’عقل مندی اور زبردست ذہانت‘ کا مظاہرہ کرنے پر مبارکباد دینے کے بعد، زیادہ اہم بیان/ ٹویٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کی جانب سے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ نائب صدر جے ڈی ونس اور انہوں نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم، بھارتی وزیر خارجہ، پاکستانی آرمی چیف، دونوں قومی سلامتی کے چیف مشیروں سے بات چیت کی۔

انہوں نے دونوں وزرائے اعظم کی ’امن کا انتخاب کرنے پر دانشمندی اور مدبرانہ حکمت عملی‘ کی تعریف کی۔ لیکن ان کے بیان کا سب سے اہم حصہ یہ تھا کہ دونوں ممالک نے ’غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے‘ پر اتفاق کیا ہے۔

ان مذاکرات کے وقت یا جگہ کے حوالے سے فوری طور پر کچھ معلوم نہیں لیکن جیسا کہ قیاس کیا جا رہا تھا، آیا یہ ابوظبی میں ہوں گے یا کسی اور جگہ پر، یہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اہم یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اپنے پرانے مؤقف ’جب تک کہ پاکستان دہشت گردی کی حمایت ختم نہیں کرتا، مذاکرات نہیں ہوں گے‘ سے دستبردار ہوگیا ہے۔

جیسا کہ عام طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوتا ہے، دونوں ہی اپنی جیت کے دعویٰ کریں گے لیکن یہ واضح ہے کہ صرف ایک فریق مذاکرات پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹا ہے جبکہ اسلام آباد تو نئی دہلی سے بارہا مذاکرات کی میز پر آنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

اگر بھارت پیچھے نہیں ہٹتا اور واقعی میں بات چیت ہوتی ہے تو اس میں برصغیر کے اُن کروڑوں لوگوں کی جیت ہوگی جو سطح غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امید ہے کہ خطرناک جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے اور شاید جوہری نہج سے نیچے روایتی طاقت کا نیا قائم کردہ توازن مستقبل میں تنازعات کو روکے گا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 جون 2025
کارٹون : 23 جون 2025