پاک-بھارت کشیدگی کے درمیان ماسکو کی ریڈ اسکوائر پریڈ کتنی اہمیت کی حامل تھی؟
جب جمعے کی شب لائن آف کنٹرول سے اُٹھتے بارودی غبار کے گہرے سائے چھائے ہوئے تھے تب دنیا کے دوسرے حصے میں 23 ممالک کے با وردی اہلکار ماسکو کے ریڈ اسکوائر پر سوویت یونین کے اُن 2 کروڑ 70 لاکھ مرد و خواتین کو خراجِ تحسین پیش کررہے تھے جنہوں نے نازی جرمنی کو شکست دی، برلن پر قبضہ کیا اور ایڈولف ہٹلر کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا۔
اگر جنوبی ایشیا کے دو ہمسائے ایک دوسرے کے خلاف تباہ کُن مہم چلانے میں مصروف نہ ہوتے تو یہ خیال انتہائی پُرکشش لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے فوجی دستے بھی چین، روس، ازبکستان، مصر و دیگر ممالک کے دستوں کے ساتھ مساوی امن اور خوشحالی کے عالمی نظام کے لیے مارچ کررہے ہوتے۔ لیکن طاقتور قوتیں اس خیال کے خلاف متحرک ہیں۔
خوش آئند طور پر جنوبی ایشیا میں جلتی آگ بجھ چکی ہے اور وہ ایسے ملک نے بجھائی ہے جو دنیا میں ممالک کے درمیان سب سے زیادہ آگ لگانے کے لیے ہی جانا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے جیت اور فوجی املاک کو زیادہ نقصانات پہنچانے کے دعووں کے درمیان اگرچہ دونوں ہی غم و غصہ اور بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت کو ایک بار پھر اپنے باہمی تنازع کو سلجھانے کے لیے بیرونی قوت پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے ظاہر کیا کہ یہ اب بھی ذہنی طور پر مضبوط نہیں کہ ایک ارب سے زائد آبادی کی تقدیر کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔ تاہم امن معاہدہ پہلگام کے مقامی سانحہ کو عالمی سیاست اور اقتدار کی کشمکش کے بڑے منظرنامے سے منسلک کردیتا ہے۔
اس حوالے سے گمان نہ رکھیں کہ یہ معاملہ 4 نفرت پھیلانے والے شرپسندوں کی جانب سے پہلگام میں بےگناہ افراد کو قتل کرنے سے شروع ہوا جو حملہ کرنے کے بعد اپنا سراغ چھوڑے بغیر کسی ایسے کونے میں چھپ گئے ہیں جوکہ عسکری اعتبار سے دنیا کا محفوظ ترین مقام ہے۔ یہ محرک کہ ان 4 حملہ آوروں نے لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا، چند لوگوں کو سیاست میں اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کا موقع دیا ہے۔
یاد رہے کہ 2002ء میں گودھرا میں ٹرین میں آتشزدگی کے سانحہ کے بعد یہ پاکستان ہی تھا جسے سب سے پہلے موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا اور پھر گجرات میں فرقہ وارانہ قتل عام ہوا جس میں مشتعل ہجوم کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کھلی چُھوٹ دے دی گئی تھی۔
جنوبی ایشیا میں ہندو-مسلم تفریق کی جڑیں نوآبادیاتی دور سے منسلک ہیں کہ جب انگریزوں نے 1857ء کی غدر کو روکنے کے لیے اس کا استعمال کیا۔ وہ ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کے اصول پر عمل پیرا تھے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی متعدد مختصر کہانیوں میں اس مذہبی جنون کی جھلک پیش کی جس نے پاکستان اور بھارت کو پُرتشدد انداز میں تخلیق کیا۔ ان کا افسانہ ’غلطی‘ ایک ایسے شخص کی کہانی تھی جسے غلطی سے قتل کردیا جاتا ہے اور جب اس کی لاش کو برہنہ کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ مقتول کا تعلق تو قاتل برادری سے تھا۔
بھارت کے موجودہ مقبول ترین لیڈر جو انتخابات جیتنے کے لیے مذہبی شناخت کا استعمال کرتے ہیں، اس دور میں نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ کہتے نظر آتے ہیں مسلمانوں کو اس کے لباس سے پہنچانا جاسکتا ہے (جس کا مطلب ہے کہ آپ اسی طرح غیرمسلموں کی بھی شناخت کرسکتے ہیں)۔ پہلگام پر وحشیانہ حملہ کرنے والے شاید شناخت کے اس حربے سے واقف نہیں تھے یا شاید انہیں اپنے جرم کا آڈیو ریکارڈ چاہیے تھا جو انہوں نے سیاحوں سے ان کا مذہب دریافت کیا۔
اگر آپ پہلگام کو ایک طرف کردیں تو ایکشن اور ری ایکشن کی زیادہ واضح تصویر آپ کے سامنے آئے گی۔ پہلگام واقعہ برکس کے ایک اور رکن یعنی بھارت کے لیے فوجی تعطل کا باعث بنا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا کہ مستقبل کی کثیر قطبی دنیا کے دو سب سے اہم ستون، روس اور ایران پہلے ہی مغرب کے نشانے پر ہیں۔
ایران جو گلوبل ساؤتھ کی اہم طاقتور علامت بن کر اُبھرا ہے، اسے درپیش فوجی چیلنجز کے برعکس برکس کا بانی روس جو خود کو کثیر قطبی مستقبل کے محور کے طور پر دیکھتا ہے، اسے مغرب پراکسی وارز کے ذریعے ’کمزور‘ کرنے کی کوششوں میں ہے۔ لیکن جنوبی ایشیا کے تنازع نے برکس کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ برکس کے بانیان میں شامل بھارت نہیں چاہے گا کہ اس کا طاقتور حریف پاکستان اس تنظیم کا حصہ بنے۔
اگرچہ بھارت اہم رکن ہے لیکن اس کا برکس کے ساتھ تعلق کمزور ہوچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان جو برکس کا مضبوط حامی ہے، اسی صورت میں مستقل رکن بن سکتا ہے اگر بھارت اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس لیے 22 اپریل کو پہلگام میں دہشتگردانہ حملہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوسکتا ہے جس کا مقصد گلوبل ساؤتھ کو کمزور اور برکس کو تقسیم کرنا ہوسکتا ہے۔
ماسکو ریڈ اسکوائر پر یومِ فتح کی تقریبات برکس کے لیے اہم موقع ثابت ہوسکتی ہیں، ایک ایسا گروپ جس سے ڈونلڈ ٹرمپ خوف کھاتے ہیں جبکہ روس اور چین اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ماسکو اور بیجنگ کو دنیا بھر سے ایسے بہت سے ممالک کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ان کی سیاسی اور اقتصادی معاملات کو کنٹرول کرنے والے مغربی تسلط کے خلاف اتحاد میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں۔
ریڈ اسکوائر پر پیریڈ کو دیکھنے کے لیے گلوبل ساؤتھ کے بڑے عالمی رہنماؤں نے تقریب میں شرکت کی۔ ان میں چین کے شی جن پنگ نمایاں رہے لیکن کیوبا، وینزویلا، برازیل، مصر، بیلاروس سمیت پورے وسطی ایشیائی خطے سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ملائیشیا، میانمار اور ویتنام سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی اہم تھے۔ سربیا اور سلواکیہ کے سربراہان جو نیٹو کے رکن ہیں، انہوں نے بھی مغربی دباؤ کے باوجود تقریب میں شرکت کی۔
افریقی لیڈران نے خوشی کا اظہار کیا جبکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے موسیقی اور رنگوں سے بھرپور شو پیش کیا جس نے اتحاد کی طاقت کا مظاہرہ پیش کیا۔ اس سے اسٹینلے کبرک کی فلم ’اسپارٹیکس‘ کے ڈرامائی فوجی مناظر ذہن کے پردے پر ابھرے جو رومن سلطنت کے خلاف غلاموں کی بغاوت پر مبنی تھی۔ یہ فلم امریکی کمیونسٹ پارٹی کے ایک سابق رہنما نے لکھی تھی۔ مذکورہ فلم کی طرح ماسکو میں فوجی دستے بھی ایک نسل پرست فوجی رجیم کے خاتمے کا جشن منا رہے تھے۔
پریڈ کے دوران ولادیمیر لینن کے چہرے کے ساتھ سرخ جھنڈے فخریہ انداز میں آویزاں تھے۔ اور ایک طویل عرصے بعد کمیونسٹ کی پرانی علامت ہتھوڑا اور درانتی، مارچ کرنے والے فوجیوں کے درمیان نظر آئی۔
یہ غیرمتوقع نہیں تھا کہ ان تقریبات میں نریندر مودی شامل نہیں تھے۔ پاکستان کے ساتھ فوجی تصادم سے کئی ماہ پہلے ہی انہوں نے اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت، مغرب کو چیلنج کرنے والے برکس گروپ کی کُھل کر حمایت کرنے سے کترا رہا ہے۔
صرف یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے مودی کی جیت ہوئی حالانکہ پاکستان دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے زیادہ بہتر انداز میں مقدمہ لڑا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔