بجٹ 26-2025: کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس چھوٹ جاری رکھنے کی تجویز

شائع June 11, 2025
کسان حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
کسان حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے زرعی شعبے کو بھی نئے مالی سال کے بجٹ میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کسانوں کے دیرینہ مطالبے کو منظور کرتے ہوئے کھاد اور کیڑے مار ادویات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی چھوٹ دینے کی تجویز سامنے آئی ہے، اس کے باوجود متعلقہ اسٹیک ہولڈز شکایت کر رہے کہ ان سے کیے گئے وعدوں کو وفاقی بجٹ میں تسلیم نہیں کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کو پارلیمنٹ میں اعتراف کیا کہ زرعی شعبہ پاکستان کی 24 فیصد جی ڈی پی کا ذمہ دار ہے، گزشتہ برس اس شعبے نے توقعات کے برعکس کارکردگی دکھائی اور مطلوبہ اہداف کی تکمیل میں ناکام رہا، انہوں نے کہا کہ حکومت زرعی شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد کرے گی تاکہ یہ سیکٹر مزید ترقی کرسکے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ’اگرچہ زراعت کا شعبہ صوبائی معاملہ ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے اس شعبے کی ترقی کے لیے قومی کمیٹی قائم کی ہے جو جلد اپنی سفارشات پیش کرے گی‘۔

زرعی شعبے کے قرضے گزشتہ مالی سال کے 10 ماہ میں ایک ہزار 785 ارب روپے سے بڑھ کر رواں مالی سال کے اسی عرصے میں 2 ہزار 66 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت کسانوں کو ’کلین فنانسنگ فیسیلٹی پروگرام‘ کے تحت کسی ضمانت کے بغیر ایک لاکھ روپے تک کا قرض دے گی جو کہ براہ راست کسانوں کے انفرادی ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں وصول کیے جا سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت ’نیشنل سیڈز اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘ کے قیام کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس کا کام موسمیاتی تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیج اور فصل کے معیار کو برقرار رکھنا ہوگا۔

محمد اورنگزیب نے بتایا تھا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے کپاس کی فصل میں کسانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تاہم گزشتہ مالی سال میں کپاس کی فصل میں کچھ بہتری نظر آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت زرعی شعبے کی ترقی کے لیے مجموعی طور پر 4 ارب روپے کے فنڈز جاری کرے گی جو 10 جاری اور 5 نئی اسکیموں کے لیے مختص ہوں گے۔

گرین پاکستان پروگرام کے تحت فصلوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے، پیداوار میں کمی کو پورا کرنے اور کسانوں کی منڈیوں تک آسان رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت ایک ہزار ’ایگریکلچرل گریجویٹس‘ کو جدید زرعی تکنیکس سیکھنے کے لیے چین بھیجے گی جن میں سے 300 طلبہ پہلے ہی چین روانہ ہو چکے ہیں۔

تاہم کسان حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ رہنما پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا کہ زرعی شعبے نے گزشتہ مالی سال میں 0.56 فیصد کی معمولی ترقی کی، اس میں سے بھی بڑا حصہ لائیو اسٹاک کا رہا۔

خالد کھوکھر نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب بجٹ کا فلسفہ اور مختصات اس ہدف کی حمایت نہیں کرتے تو یہ شعبہ 4.5 فیصد نمو کیسے حاصل کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بیج کی بہتری ایک نعرہ ہے، لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیسہ کہاں ہے؟ حکومت نے منڈی سے ہاتھ کھینچتے ہوئے خریداری کی قیمت مقرر کرنے اور گندم خریدنے سے انکار کردیا، لیکن متبادل انتظام کہاں ہے؟ کیا ذخیرہ اندوزوں سے کوئی جواب طلبی ہوئی؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لکھ لیں، اگر حل طلب مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو آئندہ سال اس سے بھی بُرا ہوگا، کھاد اور کیڑے مار ادویات پر جی ایس ٹی نہ لگانا خوش آئند عمل ہے لیکن یہ اس سیکٹر کی بحالی کے لیے ناکافی ہے‘۔

دوسری جانب حکومت پنجاب کے عہدیدار نے وفاقی حکومت کی ’غیر حساسیت‘ پر افسوس کا اظہار کیا اور شکایت کی کہ بجٹ میں صرف ایک وعدہ پورا کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وفاق نے زرعی مشینری پر ڈیوٹیاں کم کرنے، کھاد کی قیمتوں میں ممکنہ حد تک کمی کرنے اور تحقیق و ترقی کے اقدامات کو فراغ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس کے بجائے، اس نے ذمہ داری سے بچنے کے لیے محض اصطلاحات اور معمولی رعایتوں کا سہارا لیا، جس پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے دو ان پٹس پر جی ایس ٹی سے استثنیٰ دینے کو خوش آئند قدم قرار دیا۔

کارٹون

کارٹون : 27 جون 2025
کارٹون : 26 جون 2025