• KHI: Partly Cloudy 16.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.4°C
  • ISB: Cloudy 14.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 16.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 11.4°C
  • ISB: Cloudy 14.2°C

خواجہ آصف کی جانب سے ’ہائبرڈ نظام‘ کی تعریف کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟

شائع June 21, 2025
رسول بخش رئیس نے کہا کہ پی پی پی ، ن لیگ کا سیاسی سرمایہ ان کے انسدادی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے ساتھ دفن ہو چکا
— فائل فوٹو: رائٹرز
رسول بخش رئیس نے کہا کہ پی پی پی ، ن لیگ کا سیاسی سرمایہ ان کے انسدادی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے ساتھ دفن ہو چکا — فائل فوٹو: رائٹرز

جو اصطلاح پہلے صرف تجزیہ کاروں کی جانب سے موجودہ نظامِ حکومت کی انوکھی نوعیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی، اب بظاہر فخر کے تمغے کے طور پر اپنائی جا رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کے اہم رکن (وزیر دفاع) خواجہ آصف نے حال ہی میں ملک میں رائج ’ہائبرڈ نظام‘ کے لیے تعریفی کلمات کہے ہیں۔

یہ اصطلاح اُس غیر رسمی طاقت کی تقسیم کے بندوبست کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس کے تحت ملک کی فوج موجودہ سول حکومت پر خاصا اثر رکھتی ہے، اور ریاست کے امور چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

جمعرات کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پیغام میں وزیر دفاع نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوپہر کے کھانے پر ہونے والی ملاقات کو ’ہائبرڈ ماڈل آف گورننس‘ کی کامیابی قرار دیا۔

انہوں نے لکھا کہ معیشت کی بحالی، بھارت کی شکست، امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری، یہ تمام انقلابی تبدیلیاں وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان تعاون اور اسلام آباد و راولپنڈی کے درمیان شاندار تعلقات کی بدولت ممکن ہوئی ہیں۔

یہ سوشل میڈیا پوسٹ جلد ہی موضوعِ بحث بن گئی، اور کئی مبصرین نے سوال کیا کہ وزیر کا مطلب کیا تھا؟، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے پوچھا کیا جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے اور سول بالادستی کا نعرہ لگانے والی جماعت کے رکن کے لیے اس طرح کی خوشی کا اظہار مناسب ہے؟

بعد ازاں ’عرب نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں (جو جمعہ کو شائع ہوا) وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان میں ’ہائبرڈ رجیم‘ کی موجودگی کو صاف گوئی سے تسلیم کیا۔

انہوں نے اس سول-ملٹری ہائبرڈ نظام کو کسی حد تک ’شراکت داری کا نظام‘ قرار دیا، اور کہا کہ اگرچہ یہ مثالی جمہوری حکومت نہیں، لیکن یہ ’کمال کر رہی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ نظام ایک عملی ضرورت ہے، جب تک کہ پاکستان معیشت اور طرزِ حکمرانی کے مسائل سے باہر نہیں نکل جاتا۔

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان (جو کہ اپنی صاف گوئی کے لیے مشہور ہیں) نے یہاں تک کہا کہ اگر 1990 کی دہائی میں (جب دو مرتبہ نواز شریف وزیر اعظم بنے) ایسا ماڈل اپنایا جاتا، تو حالات بہت بہتر ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان ٹکراؤ جمہوریت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

’ڈان‘ سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ عمران خان کے ہٹائے جانے کے بعد یہ تیسرا ’ہائبرڈ نظام‘ ہے، فرق یہ ہے کہ جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے بڑی سیاسی جماعتوں کو توڑ کر اپنے فرنٹ بنائے تھے، لیکن اس بار 2 بڑی جماعتیں خود سیاسی پردے کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ اس کی وجوہات خاص طور پر ابھرتی ہوئی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقابلے میں کرپشن کے مقدمات سے نجات حاصل کرنا اور اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں سیاست میں قائم رہنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو کامیابی دلا کر انہیں ’ہائبرڈ نظام میں ایک ضمیمے‘ کی حیثیت تک محدود کر دیا، اب ان جماعتوں کا سیاسی سرمایہ ان کے انسدادی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے ساتھ دفن ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال، شریف خاندان، زرداری خاندان اور اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح یہ ہے کہ تیسری قوت (یعنی عمران خان کی قیادت والی تحریک انصاف) کو غیر مؤثر بنایا جائے۔

انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تاریخی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی غیر موجودگی نے ان کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس ملاقات نے ’منتخب‘ ہونے کی ہلکی سی تہہ بھی ہٹا دی ہے، دنیا کافی عرصے سے جانتی ہے کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے اور کن کے ہاتھوں میں ہے، سیاسی اتحادی خود کو حکومت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پِلڈاٹ) کے سربراہ اور سینئر سیاسی تجزیہ کار احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف ایسے پہلے فرد نہیں ہیں جنہوں نے ’ہائبرڈ ماڈل‘ کے وجود کو تسلیم کیا ہو۔

انہوں نے ’روزنامہ ڈان‘ کو بتایا کہ عمران خان نے بارہا یہ تسلیم کیا کہ فوج کا کلیدی فیصلوں جیسے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اور بجٹ کی منظوری میں کردار رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے پاس ایک آئین موجود ہے، اور اس سے انحراف کے سنگین نتائج نکلیں گے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ سیاست دانوں اور فوج کو قومی سلامتی کمیٹی میں بیٹھ کر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے درمیانہ اور طویل المدتی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

احمد بلال محبوب کا ماننا ہے کہ وزیر دفاع اپنے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر بات کر رہے تھے، ’انہیں لگتا ہے کہ ان کے لیے واحد حقیقت پسندانہ راستہ سمجھوتہ ہے‘، تمام بڑی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی (اور شاید تحریک انصاف بھی) اس پر یقین رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے آئینی اختیارات کو نواز شریف سے زیادہ کسی نے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی، انہوں نے برصغیر میں امن کی کوشش بھی کی لیکن بڑے شریف کو بارہا دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بنایا گیا۔

پلڈاٹ کے سربراہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مسلم لیگ (ن) اس رجحان کے خلاف سب سے طویل جدوجہد کرنے والی جماعت رہی ہے، اور انہیں اس جدوجہد میں کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے، شاید اب وہ بہت تھک چکے ہیں، اور میں ان پر الزام نہیں دیتا۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025