• KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Partly Cloudy 22.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 15.3°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

’یہ پنجروں کو کھولنے اور چڑیا گھروں کو مستقل طور پر بند کرنے کا وقت ہے‘

شائع July 10, 2025
ہاتھی نور جہاں اپریل 2023ء میں اپنی موت سے چند ہفتے قبل کراچی چڑیا گھر میں اپنے انکلوژر کی ریلنگ سے اپنا سر رگڑ رہی ہے، اس کی بہن مدھوبالا پیچھے ہے—تصویر: فور پاز
ہاتھی نور جہاں اپریل 2023ء میں اپنی موت سے چند ہفتے قبل کراچی چڑیا گھر میں اپنے انکلوژر کی ریلنگ سے اپنا سر رگڑ رہی ہے، اس کی بہن مدھوبالا پیچھے ہے—تصویر: فور پاز

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ جب ہاتھیوں کو احساس ہوجاتا ہے کہ ان کی موت نزدیک ہے تو وہ وقار، ہمدردی اور امن سے تنہا مرنے کے لیے اپنا ریوڑ چھوڑ دیتے ہیں۔

لیکن نورجہاں اور سونیا نامی جنگلی افریقی ہتھنیاں جو 2009ء میں اپنے بچپن میں ہی تنزانیہ سے پکڑی گئی تھیں، انہیں عام ہاتھیوں جیسا انجام میسر نہیں ہوا۔ وہ لوہے کی سلاخوں کے پیچھے قید میں ہی مر گئیں جہاں وہ بیماری اور تنہائی میں مبتلا تھیں جبکہ وہ ایسے ماحولیاتی نظام سے بہت دور تھیں جو قدرت نے ان کے لیے بنایا ہے۔

کراچی چڑیا گھر میں جنگلی حیات اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے درجنوں رضاکار بیمار نورجہاں کی 24 گھنٹے نگرانی کرتے رہے، اسے ادویات اور کھانا دیتے رہے، اس کے زخموں کی دیکھ بھال کرتے رہے اور کرین کی مدد سے اسے کروٹ دینے میں مدد کرتے رہے اور جب وہ بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوگئی تو اس کی دیکھ بھال کرنے والے غمزدہ تھے۔

نورجہاں کے فوراً بعد سونیا بھی صرف 18 سال کی کم عمری میں تپ دق سے ہلاک ہوگئی۔ تپ دق کی حالت جنگلی ہاتھیوں میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے اور اکثر اس کا تعلق قید میں پیدا ہونے والے تناؤ سے ہوتا ہے۔ سونیا کی یادداشت میں لکھا ہے، ’سلاخوں کے پیچھے، روح کی آزادی کی تلاش میں، جہاں وہ کبھی چلی تھی، وہاں پھولوں کو کھلنے دو‘۔

جن لوگوں نے سونیا کو اس کے آخری ایام میں دیکھا، وہ ان جذباتی لمحات کو یاد کرتے ہیں۔ دو بہن ہتھنیوں میں سے ایک (سونیا)، اداسی اور غصے میں ایک املی کے درخت سے ٹکرا گئی تھی۔ دوسری بہن نے گہری محبت کا اظہار کرتے ہوئے اسے نرمی سے گلے لگایا۔ دل چھو لینے والے اس منظر نے سب کو باور کروایا کہ ہاتھی سماجی متحرک اور انتہائی حساس جانور ہیں۔ انہیں قید میں رکھنا نہ صرف ان کے جسموں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اس عمل سے ان کی روحیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

عمر بھر کی قید

ان ہاتھیوں کی موت ایک المیہ تو ہے ہی مگر جدید دور میں چڑیا گھروں کے حوالے سے بڑھتے اخلاقی اور ماحولیاتی خدشات کی ایک واضح علامت بھی ہے۔ 2012ء کے بعد سے پاکستانی چڑیا گھروں میں ہاتھیوں کی یہ حالیہ اموات، جنگلی حیات کو قیدی بنانے کے انتظامات میں ایک وسیع تر بحران کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔

ہاتھی جنگلات میں دن میں 20 سے 25 کلومیٹر چلتے ہیں، چارہ کھاتے ہیں، سماجی طور پر متحرک ہوتے ہیں اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس چڑیا گھر کے بند پنجروں میں ان کی نقل و حرکت چند سو میٹر تک محدود ہوتی ہے جو موٹاپا، جوڑوں کی تکلیف اور ان میں عجیب رویوں کا باعث بنتا ہے جیسے کہ بار بار چلنے اور سر کو دیواروں یا درختوں سے ٹکرانے جیسے عوامل بار بار ہوتے ہیں جو انہیں انتہائی تکلیف پہنچاتے ہیں۔

کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی نورجہاں بیمار حالت میں—تصویر: رائٹرز
کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی نورجہاں بیمار حالت میں—تصویر: رائٹرز

اور ہاتھی کبھی بھی اکیلے نہیں ہوتے۔ شیر، گیدڑ، ریچھ، زیبرا اور رینگنے والے جانوروں کی قسمت اکثر ایک جیسی ہوتی ہے جنہیں جنگلی حیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور ان کی ماحولیاتی یا جذباتی ضروریات کا بہت کم خیال رکھتے ہوئے انہیں سرکاری و نجی چڑیا گھروں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے جانوروں کو چھوٹے مقامات پر کم عملے والی سہولیات میں چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ یہاں بنیادی ویٹرنری دیکھ بھال اور ماحولیاتی افزودگی کا بھی فقدان ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ بےزبان جانور مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔

ایک ایسے دور میں چڑیا گھروں کے وجود کے حق میں دلائل دینا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ جہاں جانوروں کے تحفظ، تعلیم اور بہبود کو اہمیت دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ جانوروں کے حقوق کے حامی کہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی بشمول دستاویزی فلمیں اور ورچوئل ریئلٹی کی مدد سے اب جانوروں کو عمر بھر کی قید میں رکھے بغیر بھی تعلیم اور آگاہی ممکن ہے۔

جیسے جیسے عوام میں شعور پیدا ہورہا ہے اور نورجہاں اور سونیا جیسی اموات کے سامنے آنے سے ایک سوال اہم ہوتا چلا جاتا ہے کہ کیا چڑیا گھر کا دور پرانا ہوچکا اور کیا اب انہیں بند کرنے کا وقت آ چکا ہے؟

قید جانوروں کے مصائب

دورِ بادشاہت سے لے کر جدید شہروں کے چڑیا گھروں تک، انسانوں کی جانب سے اپنی تفریح کی غرض سے جنگلی حیات کو پنجروں میں قید کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ لیکن اب صحیح کیا ہے، اس بارے میں بدلتے ہوئے خیالات، ماحول کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش اور جانوروں کے برتاؤ کے بارے میں مزید معلومات کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگ چڑیا گھر کو فرسودہ اور ظالمانہ قرار دینے لگے ہیں۔

یہ سوال کرنے کا وقت ہے کہ کیا یہ ادارے جو درحقیقت طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن بعد میں ان کے حوالے سے دعوے کیے گئے کہ انہیں تعلیم اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے، واقعی ان جانوروں کی دیکھ بھال کرسکتے ہیں یا ان مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں جن کے لیے انہیں بنانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے؟

چڑیا گھروں کا تصور قدیم تہذیبوں سے وابستہ ہے۔ مصر کے فرعونوں نے 2500 قبل مسیح میں غیرملکی جانوروں کو پال رکھا تھا۔ رومیوں نے شیروں، ہاتھیوں اور دیگر مخلوقات کے وسیع مجموعے کو قید رکھا جو اکثر کولوزیم میں تماشے کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔

18ویں اور 19ویں صدیوں کے دوران یورپی بادشاہوں نے سامراجیت کی علامت کے طور پر نجی نمائش گاہیں قائم کیں جن میں نوآبادیاتی علاقوں سے جمع کیے گئے جانوروں کا مجموعہ رکھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں مجموعوں نے عوامی چڑیا گھر کی شکل اختیار کی جس کی مثال 1828ء میں لندن چڑیا گھر کا قیام ہے جس نے سائنسی تجسس اور عوامی تعلیم پر توجہ مرکوز کی۔

نوآبادیاتی دور میں نمائش گاہیں—تصویر: ایکس
نوآبادیاتی دور میں نمائش گاہیں—تصویر: ایکس

اور اس سے پہلے کہ ہم چڑیا گھروں کی حالت زار پر بحث شروع کریں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک دور میں انسانوں کو بھی پنجرے میں قید کرتے تھے۔ آخری ’انسانی چڑیا گھر‘ صرف ایک صدی سے بھی کم عرصہ قبل بند ہوا ہے۔ تعلیم اور تفریح کے لیے بازار لگائے گئے، ان نمائشوں میں انسانوں میں فرق دکھانے کے لیے نوآبادیاتی علاقوں کے مردوں، خواتین اور بچوں کو غیرملکی نمونوں کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ یہ عوامی نمائشیں انسانی نسلیں دکھانے کے لیے کی جاتی تھیں جس نے نوآبادیاتی دور کو غیرانسانی بنایا۔ آج ہم اسی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ اب انسانوں کی جگہ جانور پنجروں میں قید ہیں۔

برصغیر اور چڑیا گھر

برصغیر پاک و ہند میں چڑیا گھر برطانوی راج کی آمد سے بہت پہلے موجود تھے۔ تاہم یہ جدید، عوامی معنوں میں ’چڑیا گھر‘ نہیں کہلائے جاتے تھے۔ بلکہ وہ غیرملکی جانوروں کے شاہی مجموعے تھے جنہیں بادشاہوں اور شہنشاہوں نے اپنی حیثیت، تفریح اور بعض اوقات مذہبی یا علامتی مقاصد کے لیے پال رکھا تھا۔

شہنشاہ اشوکا جو بدھ مت اور عدم تشدد کے حامی کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین قائم کیے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جانوروں کے پارکس اور کلیکشن برقرار رکھے جو شاید کسی حد تک جانوروں کی پناہ گاہوں یا نمائشی مقامات کی طرح کام کرتے تھے۔

مغل شہنشاہ بالخصوص اکبر، جہانگیر اور شاہجہان نے وسیع شاہی نمائش گاہیں بنائی تھیں۔ جہانگیر کو جانوروں اور قدرتی تاریخ میں گہری دلچسپی تھی۔ ان کی یادداشتیں (تزکِ جہانگیری) شاہی باغات میں شیروں، ہاتھیوں، ہرنوں اور پرندوں کو بیان کرتی ہیں جن میں سے کچھ حیوانیات کے مجموعوں کی ابتدائی اشکال کے طور پر کام کرتی ہیں۔

تپ دق سے متاثرہ ہتھنی سونیا کا ڈاکٹرز معائنہ کررہے ہیں—تصویر: رائٹرز
تپ دق سے متاثرہ ہتھنی سونیا کا ڈاکٹرز معائنہ کررہے ہیں—تصویر: رائٹرز

برطانوی نوآبادیاتی دور کا پہلا چڑیا گھر 1876ء میں کلکتہ میں قائم کیا گیا تھا جسے یورپی زولوجیکل باغات تک عوام کی رسائی کے ماڈل پر بنایا گیا تھا۔ برطانوی حکمرانی کے دوران یہ نجی کلیکشنز عوامی نمائش گاہوں میں تبدیل ہوگئی تھیں جہاں وہ غیر ملکی سرزمین سے لائے گئے جنگلی جانوروں کے ذریعے اپنا کنٹرول ظاہر کرتے تھے۔

20ویں صدی میں مزید ارتقا ہوا۔ چڑیا گھروں نے تحفظ پسند بیانیے کو اپنانا شروع کیا کہ جنہوں نے خطرے سے دوچار حیوانات کی نسلوں کی حفاظت، افزائشِ نسل کے پروگرامز کی حمایت اور قدرت کے بارے میں آگاہی پھیلانے کا دعویٰ کیا گیا۔ چڑیا گھر کے پنجروں میں بھی بہتری آئی جنہیں سلاخوں سے قدرت سے مماثل مصنوعی مقامات میں تبدیل کیا گیا تاکہ جانوروں کو جنگلات میں رہنے کا احساس ہو۔ لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود بھی جنگلی جانوروں کو قید میں رکھنا، ان کی صحت کے لیے سنگین مسائل کا باعث بنتا ہے۔

یہاں تک کہ اعلیٰ مالی اعانت سے چلنے والے جدید چڑیا گھر بھی حقیقی جنگلی ماحول کی نقل نہیں کرسکتے۔ جنگلی ہاتھیوں کو بہت ساری جگہ درکار ہوتی ہے۔ بلیوں کی بڑی اور جنگلی اقسام کو شکار میں چیلنجز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بندروں کی مختلف اقسام کو اپنا دماغ متحرک رکھنے کے لیے مضبوط سماجی روابط اور متعلقہ عناصر کی ضرورت ہوتی ہے۔

چڑیا گھر میں جانوروں کو چھوٹی جگہوں پر رکھا جاتا ہے، سخت معمولات کی پیروی کروائی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر انہیں تنہا رکھا جاتا ہے جو اکثر دباؤ اور جانوروں میں غیر فطری طرز عمل کا سبب بنتا ہے جن میں بار بار ٹہلنا، بیٹھے بیٹھے ہلنا یا خود کو تکلیف پہنچانا شامل ہوسکتے ہیں۔

لوگوں کے بیانیے میں تبدیلی

اگرچہ چڑیا گھر یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ وہ جانوروں کو پناہ گاہ، خوراک اور دیکھ بھال فراہم کرتے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ وہ جانوروں کی سماجی، جذباتی اور ماحولیاتی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔

اس حوالے سے بالخصوص پاکستان کے چڑیا گھروں کی صورت حال خوفناک ہیں۔ ان کم وسائل والی سہولیات میں تربیت یافتہ جانوروں کے ڈاکٹرز، بنیادی حفظان صحت، طبی اور صحت کی دیکھ بھال میں مدد، غذائیت سے بھرپور خوراک اور فلاحی معیارات کا فقدان ہے۔ ایسے میں زائرین کا رویہ جو اکثر چھوٹے پنجروں میں بند جانوروں کو چھیڑتے ہیں اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں، جانوروں پر مظالم میں اضافے کا باعث ہے۔

قید کی زندگی میں جانوروں کے خود کو نقصان پہنچانے کے امکانات بھی ہوتے ہیں
قید کی زندگی میں جانوروں کے خود کو نقصان پہنچانے کے امکانات بھی ہوتے ہیں

یہ خیال کہ چڑیا گھر معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کے تحفظ میں مدد کرتے ہیں، مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ چڑیا گھر کے جانوروں کی صرف ایک چھوٹی سی تعداد ہی درحقیقت معدومیت کے خطرے میں ہے جبکہ اس سے بھی کم تعداد انہیں جنگلات میں دوبارہ متعارف کروانے کی حقیقی کوششوں کا حصہ ہے۔

چڑیا گھر بچوں کو بھی غلط پیغامات دیتے ہیں۔ یہ بچوں کو جانداروں کے بجائے حیوانات کو نمائشی اشیا کے طور پر دیکھنا سکھاتے ہیں حالانکہ جاندار عزت کے مستحق ہیں۔ حقیقی تعلیم تو ہمدردی پیدا کرنا ہے، ایسے میں قید جانوروں کو دیکھنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ زیادہ اچھے متبادل موجود ہیں۔ پناہ گاہیں اور جانوروں کے بچاؤ کے مراکز جانوروں کو محفوظ، زیادہ قدرتی ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ورچوئل ریئلٹی، دستاویزی فلمیں اور دیگر ڈیجیٹل ٹولز کی ٹیکنالوجی بھی جانوروں کو زندگی بھر پنجروں میں قید کیے بغیر بھی انسانوں کو ان کے بارے میں سکھا سکتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی، جانوروں کی ماحولیات کو نقصان اور حیاتیاتی تنوع میں کمی جیسے سنگین مسائل کے دور میں چڑیا گھر جیسے پرانے نظاموں کو برقرار رکھنا اب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ انصاف اور تمام جانداروں کی دیکھ بھال پر زور دے رہا ہے۔ لہٰذا اصل سوال یہ نہیں ہے کہ چڑیا گھروں کو کیسے ٹھیک کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ کیا ان کا وجود ہمارے معاشرے میں ہونا چاہیے؟

ہر پنجرے کے پیچھے کچھ نہ کچھ کھونے کی کہانیاں ہیں، آزادی، خاندان، وقار اور مقصد کھونے کی کہانیاں! یہ پنجروں کو کھولنے اور فطرت کے ساتھ جڑتے ہوئے جانوروں کے لیے زیادہ ہمدرد اور مہربان طریقے تلاش کرنے کا وقت ہے۔


یہ تحریر جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان جوڈ ایلن، ماہرہ عمر، یسرا عسکری اور عائشہ چندریگر کے لیے وقف ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال قیدی جانوروں کے حقوق کے بارے میں شعور بیدار کرنے میں گزارے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ندیم خالد

لکھاری ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے صدر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 13 دسمبر 2025
کارٹون : 12 دسمبر 2025