برطانیہ: عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی عمر کم کرکے 16 سال کرنے کا فیصلہ
برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں 16 سالہ افراد کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دیں گے، یہ فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو برطانیہ کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کر دے گا جہاں ووٹ ڈالنے کی عمر سب سے کم ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حکمران لیبر پارٹی نے گزشتہ سال اقتدار میں آنے سے قبل ووٹ ڈالنے کے لیے عمر 18 سے کم کرنے کا وعدہ کیا تھا، یہ جمہوری نظام میں مجوزہ کئی تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی جمہوریت خاص طور پر کم ووٹر ٹرن آؤٹ کی وجہ سے ’بحران‘ کا شکار ہے ۔
تاہم ووٹ ڈالنے کی عمر میں تبدیلی ایک متنازع معاملہ ہے، کیونکہ ناقدین پہلے ہی یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ یہ ایک خود غرض قدم ہے کیونکہ نئے ووٹر بننے والے نوجوان زیادہ تر بائیں بازو کی لیبر پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔
وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ واقعی اہم ہے کہ 16 اور 17 سال کے نوجوانوں کو ووٹ کا حق دیا جائے، کیونکہ وہ کام کرنے کے قابل ہیں، وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، تو جب وہ حصہ ڈال رہے ہیں تو انہیں یہ حق بھی ہونا چاہیے۔
حکومت کو پارلیمنٹ میں قانون سازی پیش کرنا ہوگی، جہاں اسے اکثریت حاصل ہے، تاکہ یہ تبدیلیاں کی جا سکیں۔
آن لائن ڈیٹابیسز کے مطابق دنیا میں صرف چند ممالک ایسے ہیں جو قومی انتخابات میں 16 سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ان میں آسٹریا شامل ہے، جو 2007 میں یورپی یونین کا پہلا ملک بنا جس نے ووٹنگ کی عمر 16 سال کر دی تھی، اس کے علاوہ ارجنٹائن، برازیل، ایکواڈور اور کیوبا بھی شامل ہیں۔
لیبر وزراء اصرار کرتے ہیں کہ یہ تبدیلی جمہوریت کو جدید بنانے کے لیے ہے اور اس کا مقصد عام انتخابات میں ووٹنگ کی عمر کو اسکاٹ لینڈ اور ویلز کی علاقائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔
یہ تبدیلیاں پچھلی کنزرویٹو حکومت کے نافذ کردہ انتخابی قوانین کے بعد آ رہی ہیں، جن میں ووٹ ڈالنے کے لیے فوٹو شناختی کارڈ دکھانا لازمی قرار دیا گیا تھا، الیکٹورل کمیشن کے مطابق اس قانون کی وجہ سے پچھلے سال کے انتخابات میں تقریباً 7 لاکھ 50 ہزار افراد نے ووٹ نہیں ڈالا۔
انسٹی ٹیوٹ فار پبلک پالیسی ریسرچ تھنک ٹینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیری کوئلٹر-پنر نے ان تبدیلیوں کو انتخابی نظام میں 1969 کے بعد سب سے بڑی اصلاحات قرار دیا، جب ووٹ ڈالنے کی عمر 18 سال کی گئی تھی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ووٹنگ کی عمر کم کرنے اور خودکار ووٹر رجسٹریشن کے نفاذ سے ووٹر لسٹ میں 95 لاکھ مزید افراد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے تبدیلیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جمہوریت بحران کا شکار ہے اور ہم اس نازک موڑ پر پہنچنے کے خطرے سے دوچار ہیں، جہاں سیاست اپنی قانونی حیثیت کھو دے گی۔
تاہم مرکزی اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی نے لیبر پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ تضاد کا شکار ہیں، کیونکہ 16 اور 17 سال کے نوجوان الیکشن میں امیدوار کھڑے نہیں ہو سکتے، لاٹری ٹکٹ یا شراب نہیں خرید سکتے اور شادی نہیں کر سکتے۔
کنزرویٹو پارٹی کے کمیونٹیز کے ترجمان پال ہومز کا کہنا تھا کہ یہ لیبر پارٹی کی ایک چال ہے، جس کی غیر مقبولیت نے انہیں بڑے آئینی فیصلے بغیر کسی مشاورت کے لینے پر مجبور کر دیا ہے۔












لائیو ٹی وی