مون سون بارشوں سے بڑھتے صحت عامہ کے مسائل، ’ہمیں قبل ازوقت تیاریوں کی ضرورت ہے‘
ہر سال مون سون کا موسم باقاعدگی سے آتا ہے، اس لیے یہ بارشیں غیر متوقع نہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ لوگ اکثر اس موسم میں آنے والے صحت عامہ کے مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
مون سون کے صحت عامہ کے خطرات میں اسہال اور ہیضہ سب سے نمایاں ہیں جو خاص طور پر سندھ اور جنوبی پنجاب میں اس موسم میں ان مقامات پر عام ہوجاتا ہے جہاں پینے کے پانی کو سیلاب آلودہ کرتا ہے۔ کراچی، لاہور اور پشاور جیسے شہری نشیبی علاقوں میں کھڑے پانی اور ناقص نکاسی آب کی وجہ سے ڈینگی اور ملیریا کی وبا میں تیزی آتی ہے۔ بے گھر آبادی میں جلد کے انفیکشنز، خارش اور لیپٹوسپائروسس سامنے آتے ہیں، زچہ و بچہ کی صحت کے بحران پیدا ہوتے ہیں جبکہ دوردراز سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں معمول کی خدمات نہیں پہنچ پاتیں۔
محکمہ موسمیات مون سون اور اس کی شدت کے بارے میں بار بار ایڈوائزری جاری کرتا ہے لیکن قومی سطح پر ردعمل کی ترجیحات مختلف ہیں۔ اصولی طور پر این ڈی ایم اے وزارت قومی صحت کی خدمات اور صوبائی محکمہ صحت کے ساتھ سیلاب کی صورت حال سے پہلے مل کر ذخیرہ اندوزی کے لیے کام کرتا ہے (جیسے مثال کے طور پر، ہیضہ اور ملیریا سے بچنے والی کٹس جمع کرتا ہے)۔
لیکن پاکستان میں درحقیقت آفات کے بعد کارروائی کی جاتی ہے، پہلے نہیں۔ مثال کے طور پر 2022ء کے سیلاب کے دوران بیماریاں پھیلنے کے کے بعد ہی مدد پہنچ سکی۔ بیماریاں پھیلنے سے پہلے روک تھام کے لیے کسی نے فوری کارروائی نہیں کی۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں ہنگامی حالات کے لیے ایک مرکز موجود ہے جو بیماریوں کا پتا لگاتا ہے لیکن عام طور پر زمینی کارروائی کرنے والے لوگوں کے ساتھ مقامی صحت کے خطرے کی معلومات کا وقت پر اشتراک نہیں کیا جاتا ہے۔ نیز صوبائی ڈیزآسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) اپنے مون سون منصوبوں میں صحت کے خطرے کا معیاری خاکہ نہیں بنا پاتی اور متوقع خطرات کی بنیاد پر صحت کی فراہمی وقت سے پہلے نہیں بھیجی جاتی۔
پاکستان میں محرکات پر مبنی ابتدائی صحت کے اقدامات زیادہ تر پاکستان ہلالِ احمر سوسائٹی کے سیلاب کے منصوبوں تک محدود ہیں جو صاف پانی، حفظان صحت اور نقد امداد پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی ہیلتھ کٹس ممکنہ متاثرہ علاقوں میں نہیں بھیجی گئی ہیں۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش کے پاس صحت، پانی، اور نقدی وسائل جیسے بہت سے شعبہ جات کے لیے ابتدائی ایکشن پلانز موجود ہیں جو سیلاب کی پیش گوئی کے بعد فعال ہوجاتے ہیں۔
نیپال سیلاب اور خوراک کے مسائل کے لیے صحت کے ابتدائی ردعمل پر کام کررہا ہے۔ جب پیش گوئیوں پر مبنی وسائل کے استعمال کی بات آتی ہے تو پاکستان بنیادی طور پر ہلال احمر کے ساتھ ہیٹ ویوز، خشک سالی اور سیلاب کے لیے چھوٹے پائلٹ پروجیکٹس پر کام کررہا ہے۔ بنگلہ دیش نے اس نظام کو قومی سطح پر باضابطہ بنا دیا ہے جہاں وسائل کی فراہمی کا منظور شدہ اور واضح منصوبہ موجود ہے۔ نیپال میں تباہی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے فعال منصوبے ہیں جو اکثر خوراک کی حفاظت سے منسلک ہوتے ہیں۔
پاکستان میں، مقامی صحت کے پروگرام اور ڈیزآسٹر مینجمنٹ آپس میں تعاون نہیں کرتے۔ نیپال نے پیش گوئی پر مبنی فنانسنگ ٹاسک فورس کے ذریعے کمیونٹی کلینک کو ابتدائی ایکشن پلان میں شامل کیا ہے۔
حکومت اب بھی صحت کے مسائل کے لیے ابتدائی منصوبہ بندی کی مکمل حمایت نہیں کرتی اور مختلف محکمے الگ الگ کام کرتے ہیں۔ این ڈی ایم اے مون سون کی منصوبہ بندی کی قیادت کرتا ہے لیکن یہ صحت کے منصوبوں سے منسلک نہیں ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش نے اپنی ڈیزآسٹر مینجمنٹ منسٹری کے ذریعے 2019ء میں ابتدائی ایکشن پلان شروع کیا جس میں صحت اور دیگر شعبوں کو شامل کیا گیا۔ نیپال قومی پروگرامز اور عطیہ دہندگان کی مدد کے ذریعے آفات اور آب و ہوا کی منصوبہ بندی میں صحت کو سرکاری طور پر شامل کرنے پر بھی کام کررہا ہے۔
جبکہ بنگلہ دیش نے پیشگی صحت کی کارروائی کو ادارہ جاتی بنایا ہے خاص طور پر طوفان اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں اسے قومی صحت کی سپلائی چینز اور پیش گوئی پر مبنی محرکات سے جوڑتے ہوئے، پاکستان تباہی کے بعد اضافے کی نوعیت پر انحصار کرتا ہے جس میں صوبائی سطح پر صحت کے لیے کوئی پیشگی باقاعدہ فعال نظام موجود نہیں ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر سسٹم میں کچھ چیلنجز ہیں۔
ناقص حکمرانی: زیادہ تر صوبوں میں، صحت اور ڈیزآسٹر مینجمنٹ کے محکمے خطرات یا طبی سامان کے بارے میں تازہ ترین معلومات کا اشتراک نہیں کرتے ہیں۔ کوئی ایک نظام نہیں ہے جیسے ڈیجیٹل ڈیش بورڈ یا نقشہ جو سیلاب کی پیش گوئی کو صحت کی سہولیات کے ان مقامات سے منسلک کرتا ہو جنہیں خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
کمزور ادارہ جاتی مینڈیٹ: پی ڈی ایم اے کے منصوبے جیسے مون سون کی تیاری کی دستاویزات، بیماریوں کے خطرات کے بارے میں بات کرتی ہیں لیکن واضح طور پر یہ نہیں بتاتے کہ ضلعی صحت کے افسران یا لاجسٹک عملے کو تیاری کے لیے پہلے سے کیا کرنا چاہیے۔
آپریشنل صلاحیت میں فرق: بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے صوبوں میں سیلاب زدہ علاقوں جیسے ڈیرہ اللہ یار اور ڈی آئی خان کے پاس ادویات یا موبائل ہیلتھ یونٹس کے لیے کولڈ اسٹوریج موجود نہیں ہے جو سیلاب کی وارننگ پر وقت سے پہلے امداد بھیجے یا جنہیں وقت پر استعمال کیا جاسکے۔
مالیات اور خریداری میں تاخیر: یہاں تک کہ جب 7 سے 10 دن کی پہلے ہی ابتدائی وارننگ ہوتی ہے، حکومت کی سطح پر سست منظوریوں اور خریداری کے عمل کی وجہ سے ہنگامی صحت فنڈز اکثر وقت پر جاری نہیں ہوپاتے ہیں۔
غیر سرکاری گروپوں کے ساتھ تعاون کا فقدان: بین الاقوامی این جی اوز اور اقوام متحدہ کی ایجنسیز بعض اوقات اپنے طور پر ابتدائی وارننگ کے منصوبے چلاتی ہیں لیکن یہ حکومتی منصوبوں سے منسلک نہیں ہیں۔ یہ منصوبہ بندی اور لاجسٹکس میں تواتر اور الجھن کا سبب بنتا ہے۔
اگرچہ بہت سے مسائل برقرار ہیں لیکن پاکستان صحت اور آفات سے نمٹنے کی تیاریوں کو آپس میں جوڑنے میں کچھ پیش رفت کر رہا ہے۔ 2023ء میں این ڈی ایم اے نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور مقامی گروپس کے ساتھ مون سون کی ایک مشترکہ مہم چلائی جوکہ مل کر کام کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔
ملک کے قومی موافقت کے منصوبے میں اب آب و ہوا سے متعلق بیماریوں کی نگرانی اور گرمی سے متعلقہ صحت کے مسائل سے نمٹنے کے منصوبے شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے صحت کے خطرات کے بارے میں مزید آگاہی کو ظاہر کرتے ہیں۔ عطیہ دہندگان کے تعاون سے چلنے والے پروگرام جیسے عالمی ادارہ صحت اور ارلی وارننگ الرٹ اور رسپانس نیٹ ورک، سیلاب کے بعد بیماریوں سے باخبر رہنے اور ان کا تجزیہ کرنے میں آہستہ آہستہ بہتر ہو رہے ہیں۔
لیکن یہ پیش رفت اب بھی سست ہے اور صرف علیحدہ منصوبوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ صوبوں کے مضبوط تعاون، شعبوں کے درمیان بہتر ٹیم ورک اور مستحکم مقامی فنڈنگ کے بغیر، صحت کی ابتدائی منصوبہ بندی معمول بننے کی بجائے نادر ہی رہے گی۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، طاقتور مون سون اور بیماریوں کے بدلتے ہوئے نمونوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی مستقبل کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک صحت کی ہنگامی صورت حال ہے جس سے اس وقت ہم گزر رہے ہیں۔
پاکستان کو قدرتی آفات کے منصوبوں میں صحت کی پیشگی کارروائیوں کو بھی باضابطہ طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ان کوششوں کو صرف عطیہ دہندگان پر انحصار کرنے کے بجائے صحت کے بجٹ سے رقم فراہم کی جائے۔ اور ایسے نظام بنائیں جو ریئل ٹائم ڈیٹا، ابتدائی انتباہات اور مختلف شعبوں میں ٹیم ورک کو بروئے کار لا سکے۔
پاکستان کو ایک ’ماحولیاتی اور صحت سے متعلقہ لچکدار پالیسی‘ کی ضرورت ہے جو مختلف اداروں کو آپس میں منسلک کرتی ہو، موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل کی پیش گوئی کرتی ہو اور وبا کے پھیلنے سے پہلے اقدامات کرنے میں مدد کرتی ہو۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔












لائیو ٹی وی