ورلڈ ایتھلیٹکس نے خواتین کھلاڑیوں کیلئے ’جینڈر ٹیسٹ‘ لازمی قرار دے دیا
ورلڈ ایتھلیٹکس نے خواتین کیٹیگری میں شامل تمام کھلاڑیوں کے لیے ’جینڈر ٹیسٹ‘ لازمی قرار دے دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ ایتھلیٹکس نےکہا کہ رینکنگ مقابلوں میں حصہ لینے کی خواہشمند خواتین ایتھلیٹس کو ایک مرتبہ کے لیے جینڈر ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہوگا، اس اقدام کا مقصد خواتین کے کھیلوں کی سالمیت کا تحفظ کرنا ہے۔
ورلڈ ایتھلیٹکس حکام نے بتایا کہ ایتھلیٹس کو زندگی میں ایک بار اپنی صنف کی تصدیق کے لیے یہ ٹیسٹ لازمی پاس کرنا ہوگا۔
حکام کے مطابق ٹیسٹنگ پروٹوکول ورلڈ ایتھلیٹکس کی رکن فیڈریشنز کی نگرانی میں مکمل کیے جائیں گے اور نئے ضوابط ٹوکیو میں ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ سے قبل یکم ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہوں گے۔
ورلڈ ایتھلیٹکس کے صدر سیباسٹین کو نے ایک بیان میں کہا کہ ایک ایسا کھیل جو مسلسل خواتین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہاں یہ ٹیسٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہاں خواتین یہ اعتماد لے کر آئیں کہ اس کھیل میں صنف ان کی رکاوٹ نہیں بنے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جینڈر کی تصدیق کے لیے یہ ٹیسٹ نہایت اہم قدم ہے، سیباسٹین کو نے کہا کہ ایلیٹ سطح پر خواتین کیٹیگری میں مقابلہ کرنے کے لیے آپ کا فطری طور پر عورت ہونا ضروری ہے۔
ایتھلیٹکس کی دنیا گزشتہ کئی برسوں سے خواتین کے مقابلوں میں شرکت کی اہلیت کے ضوابط پر بحث کرتی آ رہی ہے، خاص طور پر ٹرانس جینڈر ایتھلیٹس اور ڈیفرینس آف سیکس ڈیولپمنٹ (ڈی ایس ڈی) رکھنے والے ایتھلیٹس کے حوالے سے جن میں فطری طور پر زیادہ ٹیسٹو سٹیرون پیدا ہوتا ہے۔
ورلڈ ایتھلیٹکس مردانہ بلوغت سے گزرنے والی خواجہ سرا خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر چکی ہے جبکہ ڈی ایس ڈی رکھنے والی خواتین ایتھلیٹس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم میں ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار کم کریں تاکہ وہ مقابلے میں شرکت کی اہل ہو سکیں۔
رواں برس کے آغاز میں ایک ورکنگ گروپ نے رپورٹ دی کہ موجودہ قواعد سخت نہیں ہیں اور جینڈر ٹیسٹ کی پیشگی جانچ ان متعدد سفارشات میں شامل تھی جن پر نظرثانی شدہ قواعد کے لیے غور کیا گیا۔
جینڈر ٹیسٹ وائی کروموسوم کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے، جو کہ صنف کی ایک واضح علامت ہے، ورلڈ باکسنگ نے بھی مئی 2024 میں جینڈر ٹیسٹ کو باکسرز کے لیے لازمی قرار دیا تھا۔
رواں ماہ یورپی عدالت نے 2023 کے اُس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں کہا گیا تھا کہ 800 میٹر کی 2 مرتبہ کی اولمپک چیمپئن کیسٹر سمنیا کی اپیل کو مناسب طریقے سے نہیں سنا گیا۔
سمنیا نے ورلڈ ایتھلیٹکس کے اُن قواعد کو چیلنج کیا تھا جن کے تحت ڈی ایس ڈی کی حامل خواتین ایتھلیٹس پر اپنے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کم کرنے کی شرط عائد کی گئی تھی۔












لائیو ٹی وی