مصر میں اسرائیل اور حماس کے وفود کی ملاقات آج ہوگی، غزہ میں مہلک حملے جاری
غزہ میں مہلک حملے جاری ہیں، جب کہ حماس اور اسرائیل کے وفود آج ثالثوں کے ساتھ مصر میں مذاکرات کے لیے جمع ہونے والے ہیں، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کاروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ’تیزی سے کارروائی کریں‘۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ اس کا وفد خلیل الحیہ کی قیادت میں مصر میں موجود ہے، جو گروپ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہیں اور گزشتہ ماہ قطر میں اسرائیلی قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے تھے۔
اسرائیلی حملے غزہ میں بدستور جاری ہیں، جن میں اتوار کے روز کم از کم 24 فلسطینی شہید ہوئے، محصور علاقے کی وزارتِ صحت کے مطابق ایک شخص بھوک سے جان کی بازی بھی ہار گیا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی جنگ بندی نہیں ہے، اور اس کی فوج کے سربراہ کے مطابق عملی صورتِ حال میں تبدیلی آئی ہے۔
اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں اب تک کم از کم 67 ہزار 139 افراد شہید اور ایک لاکھ 69 ہزار 583 زخمی ہو چکے ہیں، ہزاروں مزید افراد ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 ہلاک ہوئے تھے اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
ٹرمپ کا مذاکرات تیزی سے مکمل کرنے پر زور
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو ہونے والے اہم مذاکرات سے قبل مذاکرات کاروں پر زور دیا کہ وہ تیزی سے آگے بڑھیں، ان مذاکرات کا مقصد غزہ کی جنگ کو ختم کرنے کا ہے، اور امن معاہدے کی امیدیں اس وقت بڑھ گئیں جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کا اعلان اس ہفتے کیا جا سکتا ہے۔
منگل کو حماس کے حملے کو 2 سال مکمل ہوں گے، جو 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہوا تھا اور جس نے اس جنگ کو جنم دیا تھا۔
اس ہفتے حماس اور دنیا بھر کے ممالک (عرب، مسلم، اور دیگر سب) کے درمیان بہت مثبت بات چیت ہوئی ہے تاکہ یرغمالیوں کو رہا کیا جا سکے، غزہ کی جنگ کو ختم کیا جا سکے اور سب سے بڑھ کر مشرقِ وسطیٰ میں دیرینہ امن حاصل کیا جا سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ یہ مذاکرات بہت کامیاب رہے ہیں اور تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنیکل ٹیمیں پیر کو ایک بار پھر مصر میں ملاقات کریں گی، تاکہ آخری تفصیلات پر کام کیا جا سکے اور وضاحت کی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بتایا گیا ہے کہ پہلا مرحلہ اس ہفتے مکمل ہو جانا چاہیے، اور میں سب سے کہہ رہا ہوں کہ تیزی سے آگے بڑھیں، میں اس صدیوں پرانے ’تنازع‘ کی نگرانی جاری رکھوں گا، وقت بہت اہم ہے، ورنہ بڑے پیمانے پر خونریزی ہوگی، جو کوئی بھی نہیں چاہتا!‘
ٹرمپ کے مطالبے کے باوجود اسرائیلی بمباری
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ شہر پر سلسلہ وار حملے کیے ہیں، حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جاری مذاکرات کے دوران بمباری روکنے کی اپیل کی تھی۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں ایک بڑے دھماکے کو دیکھا جا سکتا ہے، جو مبینہ طور پر غزہ میں ہوا۔
ایکس پر جاری ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے فلسطینی جنگجوؤں کو نشانہ بنایا، فوج نے مزید کہا کہ اس کی افواج پر ایک مارٹر بم بھی فائر کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک سپاہی زخمی ہوا۔
گزشتہ ماہ سے، اسرائیلی فوج نے غزہ شہر پر اپنے حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے تاکہ اس محصور علاقے کے سب سے بڑے شہر پر قبضہ کیا جا سکے۔
ایمسٹرڈیم سے استنبول تک احتجاج جاری
یورپ بھر میں ایمسٹرڈیم سے استنبول تک اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں۔
اتوار کے روز یورپ بھر میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے، سب سے بڑا احتجاج نیدرلینڈز میں ہوا، جہاں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد نے ایمسٹرڈیم کے میوزیم اسکوائر کو بھر دیا۔

استنبول میں عوام کا وسیع ہجوم امڈ آیا اور صوفیہ مسجد سے گولڈن ہورن کے کنارے تک مارچ کیا، جہاں ترک اور فلسطینی جھنڈوں سے سجی کشتیاں ان کا انتظار کر رہی تھیں۔
صوفیہ (بلغاریہ) میں مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا کہ ’غزہ: بھوک کو جنگ کا ہتھیار بنایا گیا ہے‘ اور ’غزہ بچوں کا سب سے بڑا قبرستان ہے‘۔
مراکش کے دارالحکومت رباط میں عوام نے اسرائیلی جھنڈا جلایا اور اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے کو واپس لے۔
اسپین بھر میں ایک دن قبل میڈرڈ اور بارسلونا میں ہونے والے بڑے مظاہروں کے بعد چھوٹے چھوٹے احتجاجی جلوس نکلے، جن میں شریک افراد سفید گٹھڑیاں اٹھائے ہوئے تھے جو غزہ کے بچوں کی لاشوں کی علامت تھیں۔
حماس ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کون ہیں؟
غزہ کے باہر حماس کے سب سے سینئر زندہ رہنے والے رکن خلیل الحیہ ہیں، جو مصر میں جاری بالواسطہ مذاکرات میں تنظیم کے وفد کی قیادت کریں گے۔
64 سالہ خلیل الحیہ پچھلے ماہ اسرائیل کے ایک ناکام قاتلانہ حملے کا مرکزی ہدف تھے، جب اسرائیلی فضائیہ نے قطر پر غیر معمولی حملے کیے تھے۔

الحیہ اس سے پہلے بھی کئی بار حماس کی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کر چکے ہیں اور وہ اس بار بھی عرب اور مسلم حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، جب کہ ثالث اس تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔
غزہ شہر میں پیدا ہونے والے خلیل الحیہ طویل عرصے سے حماس کے سیاسی دفتر (پولٹ بیورو) کے رکن ہیں، اور وہ فلسطینی قانون ساز کونسل کے بھی رکن ہیں، جنہیں 2006 میں منتخب کیا گیا تھا، انہیں ماضی میں اسرائیل نے گرفتار کیا تھا اور وہ کئی قاتلانہ حملوں سے بچ چکے ہیں۔
الحیہ نے جنگ کے دوران اپنے کئی خاندان کے افراد کھو دیے ہیں، حال ہی میں ان کے بیٹے ہمام، اسرائیلی حملوں میں دوحہ میں مارے گئے تھے، ساتھ ہی ان کے دفتر کے ڈائریکٹر جہاد لباد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔
حماس کے یہ سینئر رہنما ہفتے کے روز پہلی بار عوامی طور پر سامنے آئے، فلسطینی تنظیم کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں الحیہ نے کہا کہ میں جو روز غزہ میں قتل و تباہی دیکھتا ہوں، وہ مجھے اپنے بچوں اور پیاروں کے بچھڑنے کا درد بھلا دیتی ہے۔
اسرائیلی وفد کے سربراہ رون ڈرمر کون ہیں؟
رون ڈرمر فروری سے اسرائیل کی مذاکراتی ٹیموں کی قیادت کر رہے ہیں، اپنے ملک کے وزیرِ اسٹریٹجک امور کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، 54 سالہ ڈرمر کو عام طور پر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے قریبی اور قابلِ اعتماد مشیروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ڈرمر کی پیدائش اور پرورش میامی بیچ، فلوریڈا میں ہوئی، جہاں ان کے والد نے شہر کے میئر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں، برسوں کے دوران انہوں نے امریکی سیاست دانوں، خاص طور پر ریپبلکن پارٹی سے وابستہ شخصیات کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کیے، وہ 2013 سے 2021 تک امریکا میں اسرائیل کے سفیر رہے۔
ان کا اثر و رسوخ روایتی سفارت کاری سے کہیں آگے تک پھیلا ہوا ہے، امریکی اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق ڈرمر ان اہم حکمتِ عملی معاہدوں کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہیں، جن میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں شامل ہیں۔
مصر میں ہونے والے مذاکرات میں توقع کی جا رہی ہے کہ وہ نیتن یاہو کے غزہ کے مستقبل سے متعلق وژن کے مطابق رہیں گے۔













لائیو ٹی وی