حماس حکومت کا خاتمہ ضروری، منصوبے کی منظوری جنگ کے خاتمے کی ابتدا ہوگی، نیتن یاہو

شائع October 7, 2025
نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ حماس نے غزہ کے اربوں ڈالر زیر زمین دہشتگرد شہر بنانے میں لگائے — فوٹو: بشکریہ یورو نیوز
نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ حماس نے غزہ کے اربوں ڈالر زیر زمین دہشتگرد شہر بنانے میں لگائے — فوٹو: بشکریہ یورو نیوز

اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ امید ہے امریکا کی قیادت میں پیش کیا گیا جنگ بندی منصوبہ کامیاب ہوگا، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو اسرائیل کو حماس کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہوگی اور اس معاملے میں امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

یورونیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ امید ہے کہ ہم اسے آسان طریقے سے ختم کر سکیں، مشکل طریقے سے نہیں، حماس کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے، اگر حماس یہ منصوبہ قبول کرتی ہے تو ’یہ جنگ کے خاتمے کی شروعات ہو سکتی ہے‘۔

تاہم اگر حماس ایسا نہیں کرتی تو اسرائیل کو صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ کے بیان کے مطابق امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہوگی تاکہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے حماس کے خلاف زور دار کارروائی کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ ہم اسے آسان راستے سے ختم کریں گے، مشکل راستے سے نہیں۔

نیتن یاہو نے کہا کہ ہم نے اس معاہدے کو قبول کیا ہے، جیسا کہ پوری دنیا نے کیا، یہ صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ کا منصوبہ تھا، حماس کہتی ہے کہ اس نے بھی منصوبہ قبول کر لیا ہے، اب ذمہ داری حماس پر ہے۔

ان کیا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کا ہے، اسرائیل ایک ’انخلا’ کرے گا لیکن غزہ میں موجود رہے گا، دوسرا حصہ غزہ کو غیر فوجی بنانا اور حماس کو غیر مسلح کرنا ہے، جس پر بات چیت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پہلا حصہ طے شدہ ہے اور اگر یہ عمل میں آتا ہے تو یہ واقعی جنگ کے خاتمے کی شروعات ہو سکتی ہے، چونکہ ہم نے اسے قبول کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حماس کیا کرتی ہے۔

اگر حماس قبول کرتی ہے، تو یہ ایک بہت اچھا اشارہ ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ اگر حماس منصوبہ قبول نہیں کرتی اور یہ امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے تو پھر اسرائیل کو، جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہوگی تاکہ وہ حماس کے خلاف زور دار کارروائی کرے اور جنگ ختم کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یقیناً چاہوں گا کہ ہم منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں، مگر وقت ہی بتائے گا، چند دنوں میں ہمیں پتا چل جائے گا کہ آیا حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرتی ہے یا نہیں، اگر ایسا ہوا تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، یہ معاہدے کے پہلے مرحلے کی تکمیل ہوگی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حماس نے اس معاہدے پر لچک اس لیے دکھائی کیونکہ ہم نے ان کے اہم گڑھ غزہ شہر پر فوجی کارروائی کی، میں نے چند ہفتے پہلے فوج کو حکم دیا کہ وہ اس گڑھ میں داخل ہو، اس کے نتیجے میں حماس کو احساس ہوا کہ اس کا انجام قریب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی دوران صدر ٹرمپ کی مداخلت اور ان کا جنگ بندی منصوبہ آیا، جس نے اس صورتحال کو مثبت سمت میں بدل دیا، اب، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ حماس اس پر راضی ہوگی، لیکن ممکن ہے، اور میں امید کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔

نیتن یاہو نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ سب سمجھتے ہیں کہ حماس کی حکومت ختم ہونی چاہیے، ہمارے تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جانا چاہیے اور حماس دوبارہ غزہ پر حکومت نہیں کر سکتی، جو اپنے لوگوں کو دہشت کے ذریعے قابو میں رکھتی ہے اور اسرائیل پر راکٹ، میزائل حملے کرتی، ہمارے شہریوں کو یرغمالی بنا کر دہشت پھیلاتی ہے، یہ سب ختم ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہمیں ایک ’ذمہ داری کی تقسیم‘ کا نظام چاہیے، یعنی اسرائیل مجموعی سیکیورٹی کی ذمہ داری رکھے گا تاکہ غزہ سے دوبارہ دہشت گردی نہ ابھرے، اور غزہ میں ایک سول انتظامیہ قائم ہونی چاہیے جو ان لوگوں پر مشتمل ہو جو اسرائیل کی تباہی کے خواہاں نہیں بلکہ امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے خود اس سول اتھارٹی کی سربراہی کا عہد کیا ہے اور میرے خیال میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، اگر ایسا ہوتا ہے، تو ہم اسرائیل، غزہ اور پورے خطے کے لیے ایک بہتر مستقبل دیکھ سکتے ہیں۔

لیکن پہلا قدم یہی ہے تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا، اور غزہ کا غیر فوجی علاقہ بننا۔

یورونیوز نے سوال کیا یہ غزہ کے لیے اچھا معاہدہ ہے یا صرف ایک ہی راستہ؟

نیتن یاہو نے کہا کہ میرے خیال میں فی الحال یہی واحد معاہدہ ہے جو میز پر موجود ہے، دوسری بات، یہ غزہ کے لیے اچھا ہے، غزہ کے لوگ امید کر رہے ہیں کہ حماس اسے قبول کرے، وہ غزہ کو حماس سے آزاد کرانا چاہتے ہیں، حماس کی جابرانہ حکومت سے جو اپنے لوگوں کو دہشت میں رکھتی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حماس ان فلسطینیوں کو بھی مار دیتی ہے جو اس کی پالیسیوں یا اسرائیل کے خلاف اس کی جنگ کی مخالفت کرتے ہیں، حماس نے غزہ کے لیے آنے والے اربوں ڈالر صرف زمین کے نیچے ایک دہشت گرد شہر (سرنگوں کا جال) بنانے میں لگائے، عوام کے فائدے کے لیے کچھ نہیں کیا، اسی لیے غزہ کے لوگ اب حماس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے عرب ممالک، یورپ، اور خاص طور پر امریکا، سب اس کے حامی ہیں، میرے خیال میں یہ ایک بہت مثبت قدم ہے اور ہمیں اسے آگے بڑھانا چاہیے۔

بینجمن نیتن یاہو نے آخر میں کہا کہ اگر ہم غزہ میں ایک ایسا نظام قائم کر سکیں جو اپنے بچوں کو اسرائیل سے نفرت یا اس کی تباہی کی تعلیم نہ دے، بلکہ غزہ کو صرف غیر فوجی ہی نہیں بلکہ غیر انتہا پسند بھی بنایا جائے، جیسا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان میں کیا گیا، تو پھر پورے خطے کے لیے ایک بہتر، پُرامن مستقبل ممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو میرے خیال میں مزید عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کریں گے، جیسا کہ میں نے صدر ٹرمپ اور عرب رہنماؤں کے ساتھ ابراہم معاہدوں کے ذریعے کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 10 نومبر 2025
کارٹون : 9 نومبر 2025