• KHI: Clear 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.7°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C
  • KHI: Clear 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.7°C
  • ISB: Cloudy 13.2°C

بیوروکریسی ماحولیاتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی، پاکستان کا عالمی فورم پر شکوہ

شائع October 20, 2025
— فوٹو: خارجہ امور کی ویب سائٹ
— فوٹو: خارجہ امور کی ویب سائٹ

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے کہا ہے کہ ماحولیاتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فنڈز کی کمی نہیں بلکہ بیوروکریسی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے گزشتہ ہفتے ایک عالمی فورم میں کہا کہ ماحولیاتی مالی معاونت کی راہ میں رکاوٹ فنڈز کی کمی نہیں بلکہ بیوروکریسی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان جیسے صفِ اوّل کے متاثرہ ممالک کو ضروری امداد تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ایف اے او کے روم واٹر ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے رہنماؤں، وزرا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے سامنے پاکستان کا قومی مؤقف پیش کیا۔

ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے کہا کہ پانی کے بحران اب کسی نظریاتی پالیسی بحث کا موضوع نہیں رہے بلکہ عالمی جنوب کے کئی ممالک کے لیے بقا کا مسئلہ بن چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اب سرکاری طور پر پانی کی کمی والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، جب کہ شدید موسمی حالات اور وسائل کی کمی نے قومی غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ان کے مطابق یہ بحران دو شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، ایک طرف تباہ کن فراوانی، جیسے 2022 کے سیلاب جنہوں نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا، 40 لاکھ ایکڑ فصلیں تباہ کیں اور ایک کروڑ افراد کو صاف پانی سے محروم کیا اور دوسری طرف پانی کی شدید قلت ہے، جس میں ملک کے ذخائر بمشکل 30 دنوں کی فراہمی کے برابر ہیں۔

ڈاکٹر سید توقیر شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری ضرورت واضح اور فوری ہے، ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے ہم آہنگ پانی کے ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر اور بروقت سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اس میں روایتی بڑے ذخائر کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل جیسے سیلابی میدانوں کی بحالی، مضبوط آبپاشی کے طریقے اور واٹرشیڈ منیجمنٹ شامل ہیں۔

انہوں نے عالمی ماحولیاتی مالیاتی اداروں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو صرف مطابقتی اقدامات کے لیے 2030 تک ہر سال تقریباً 7 سے 14 ارب ڈالر درکار ہوں گے، لیکن عالمی مالیاتی نظام نے مطلوبہ سرمایہ کاری کو ایک تضاد بنا دیا ہے۔

عالمی ماحولیاتی مالیاتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے کہا کہ موجودہ فنڈنگ میکانزم میں سنگین خامیاں ہیں جو پانی کے شعبے میں سرمایہ کاری اور جدت کی راہ میں براہِ راست رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ باوجود اس کے کہ قومی سطح پر ضرورت بہت زیادہ ہے، پاکستان عالمی فنڈز سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکا کیونکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق منصوبوں کو انتہائی مخصوص، تکنیکی طور پر پیچیدہ اور بینک کے قابل ہونا لازمی ہے، جس کے لیے ادارہ جاتی صلاحیت پیدا کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فنڈز کی منظوری کے بعد بھی رقم کی فراہمی سست روی اور طویل قانونی کارروائیوں سے مشروط ہوتی ہے۔

ڈاکٹر توقیر شاہ نے شکایت کی کہ زیادہ تر ماحولیاتی مالی معاونت قرضوں یا نرم شرائط والے قرضوں کی صورت میں دی جاتی ہے، جب کہ گرانٹس کی شکل میں بہت کم رقم دستیاب ہوتی ہے۔

انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ کمزور معیشتوں پر قرضوں کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے جو پہلے ہی معاشی استحکام کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف) کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی منصوبے کے تصور سے لے کر بورڈ کی منظوری تک اوسط مدت 24 ماہ یا اس سے زیادہ ہے اور منظوری کے بعد پہلی قسط جاری ہونے میں بھی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

انہوں نے جی سی ایف کے آزادانہ جائزہ یونٹ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اندرونی عمل پیچیدہ، منتشر اور رکاوٹوں سے بھرپور ہے۔

ان کے مطابق بڑے ماحولیاتی فنڈز کو ترقیاتی ماہرین نے بھی تاخیر، غیر ضروری بیوروکریسی اور فنڈز کی فراہمی میں سست روی کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مشیر وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنے عالمی شراکت داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پیچیدگی اور قرض کے نظام سے نکل کر تیزی اور اعتماد کے نظام کی طرف آئیں، ہمیں ایک ایسا مالیاتی نظام درکار ہے جو ملا جلا سرمایہ، گرین بانڈز، انشورنس میکانزمز اور سرمایہ کاری کے انکیوبیشن پروگرامز کے ذریعے نجی سرمایہ کاری کے خطرات کم کرے اور چھوٹے کسانوں کے لیے مالی معاونت تک رسائی آسان بنائے۔

آخر میں انہوں نے 2030 کے عالمی ترقیاتی ایجنڈے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف، خاص طور پر ہدف نمبر 6 (صاف پانی) اور ہدف نمبر 2 (بھوک کا خاتمہ)، اس وقت تک حاصل نہیں کیے جا سکتے جب تک ہم اس چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کرتے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025