تازہ اسرائیلی حملوں میں 91 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں نہیں پڑے گی، ٹرمپ

شائع October 29, 2025
نیتن یاہو نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ’طاقتور‘ حملوں کا حکم دیا تھا — فوٹو: اسکرین شاٹ/الجزیرہ
نیتن یاہو نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ’طاقتور‘ حملوں کا حکم دیا تھا — فوٹو: اسکرین شاٹ/الجزیرہ

اسرائیلی فورسز نے فضائی حملے کرکے غزہ شہر کے ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 24 بچوں سمیت 91 فلسطینی شہید ہوگئے اور متعدد افراد ملبے تلے دب گئے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے امریکی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات بھر کے دوران غزہ میں کم از کم 91 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، جن میں کم از کم 24 بچے شامل ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ’جوابی کارروائی‘ کی ہے، کیونکہ ایک سپاہی مارا گیا تھا، لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ بھی جنگ بندی کو خطرے میں نہیں ڈالے گا، حماس کو مناسب برتاؤ کرنا ہوگا۔

غزہ میں یہ اموات اُس وقت ہوئی ہیں جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ’طاقتور‘ حملوں کا حکم دیا، اسرائیلی فوج نے بعد میں تصدیق کی کہ اس کا ایک سپاہی مارا گیا تھا۔

اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں اب تک کم از کم 68 ہزار 527 فلسطینی شہید ایک لاکھ 70 ہزار 395 زخمی ہو چکے ہیں۔

7 اکتوبر، 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

یہودی آبادکاروں نے فلسطینیوں کی گاڑیاں جلا دیں

الجزیرہ عربی نے اطلاع دی کہ صبح سویرے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ کے شمال میں واقع گاؤں عطّارہ میں اسرائیلی آبادکاروں کے گروہ نے فلسطینیوں کی ملکیت والی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

اکتوبر 2023 سے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو اسرائیلی آبادکاروں اور فوج کی جانب سے حملوں اور ہراسانی کی شدید لہر کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم ایک ہزار 59 فلسطینی شہید، تقریباً 10 ہزار زخمی ہوچکے ہیں اور 20 ہزار سے زائد فلسطینی گرفتار کیے جا چکے ہیں، جن میں ایک ہزار 600 بچے بھی شامل ہیں۔

’اسرائیل، جنگ بندی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘

الجزیرہ کی جانب سے رپورٹ کیا گیا ہے کہ مرکز برائے تنازعات اور انسانی مطالعات کے نان ریذیڈنٹ فیلو معین ربانی کے مطابق، اسرائیل دانستہ طور پر جنگ بندی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس معاہدے کو امریکا کے دباؤ پر اسرائیل نے مجبوری میں قبول کیا تھا۔

معین ربانی نے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ اسرائیل نے کبھی بھی اس معاہدے کے تحت اپنی کسی بھی ذمہ داری کو حقیقتاً پورا نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جنگ بندی موجود تھی، لیکن اسرائیل پہلے ہی 100 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے، اسرائیل نے غزہ میں طے شدہ حد تک اپنی فوجیں پیچھے ہٹائیں نہ ہی متفقہ مقدار میں امداد کو داخل ہونے دیا۔

ان ک کہنا تھا کہ اب اسرائیل ایک طرف تو یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ ملبے کے نیچے لاشوں کی تلاش کے لیے درکار بھاری مشینری کے داخلے کو روکا جائے، اور دوسری طرف انہی تاخیری وجوہات کو (جو قدرتی طور پر متوقع تھیں) معاہدے کو کمزور کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

معین ربانی نے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسرائیل خود سے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کو ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں سمجھتا۔

ان کا کہنا تھا کہ لہٰذا جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ معاہدے کو بتدریج ختم کرنے کا عمل ہے، اب اصل سوال یہ ہے کہ امریکا اس پر کیا ردعمل دے گا۔

3 نسلیں ایک ہی حملے میں ختم ہوگئیں

آج صبح تک جو معمولی سی امید تھی کہ شاید حالات پرسکون رہیں گے، وہ مکمل طور پر مایوسی میں بدل گئی ہے، آسمان جنگی طیاروں، ڈرونز اور جاسوس جہازوں سے بھرا ہوا ہے۔

اب خوف یہ ہے کہ جو کچھ گزشتہ رات شروع ہوا، وہ آنے والے کئی دنوں تک جاری رہ سکتا ہے۔

غزہ کا عمومی ماحول خوف اور دہشت سے لبریز ہے، کیونکہ غزہ نے اپنی تاریخ کی سب سے ہولناک راتوں میں سے ایک رات گزاری ہے، بہت سے لوگوں کے لیے یہ ان ابتدائی ہفتوں کی یاد تازہ کر رہی ہے جب نسل کشی کے آغاز میں شدید بمباری کے نتیجے میں بے پناہ تباہی پھیلی تھی۔

اب تک اطلاعات کے مطابق 91 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

مرکزی غزہ میں مارے جانے والے 42 افراد میں سے 18 ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، 3 نسلیں ایک ہی حملے میں ختم ہو گئیں، بچے، ان کے والدین اور دادا دادی سب شہید ہو گئے۔

یہاں غزہ سٹی میں جب حملے شروع ہوئے تو دھماکوں کی آوازیں پوری رات گونجتی رہیں، رہائشی علاقے لرز اٹھے، آسمان آگ اور روشنی سے بھر گیا، اور لوگوں میں خوف مزید بڑھ گیا۔

ہسپتال شدید دباؤ میں ہیں، الجزیرہ نے دیکھا کہ ہسپتالوں کی راہداریوں میں اسٹریچرز پر لاشیں پڑی ہیں، زخمی اور ان کے لواحقین خون میں لت پت ہیں، ہر طرف چیخ و پکار ہے۔

لوگوں کی وہ امید کہ جنگ بندی قائم رہے گی اور ذہنی سکون بحال ہوگا، اب مایوسی میں بدل چکی ہے۔

اگر جنگ بندی کی حالت یہ ہے، تو اس کے پائیدار ہونے اور برقرار رہنے پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 7 نومبر 2025
کارٹون : 6 نومبر 2025