قطری وزیراعظم نے فلسطینیوں کو جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرادیا
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی نے ایک ’ فلسطینی گروہ’ کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا، ان کا اشارہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں منگل کے روز یک اسرائیلی فوجی کی ہلاکت کی جانب تھا۔
نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز میں گفتگو کرتے ہوئے قطری وزیراعظم نے میزبان ایمن محی الدین کو بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں پر حملہ ’ بنیادی طور پر فلسطینی فریق کی جانب سے ایک ’خلاف ورزی‘ تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ حماس نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ ان کا اس گروہ سے کوئی رابطہ نہیں، لیکن ’ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ بات درست ہے یا نہیں۔’
خیال رہے کہ 28 اکتوبر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حماس پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ میں حملے کا حکم دیا تھا، الجزیرہ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت نے بتایا تھا کہ صہیونی فوج کے حملوں میں 104 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل تھے۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے حملوں کا ہدف حماس کے سینیئر جانباز تھے، جن میں سے درجنوں شہید ہوگئے، اور بعد میں کہا کہ وہ بدھ کی دوپہر سے دوبارہ جنگ بندی پر عمل شروع کرے گا۔
قطر کے وزیرِاعظم نے کہا کہ ’ہم دونوں فریقین کے ساتھ بہت سرگرمی سے رابطے میں ہیں تاکہ جنگ بندی برقرار رہے، امریکا کی شمولیت، یقیناً، اس معاملے میں کلیدی رہی، اور میری رائے میں جو کچھ کل(منگل) کو ہوا، وہ ایک خلاف ورزی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ بات چیت کے دوران حماس کی جانب سے ’ لاشوں کی منتقلی میں تاخیر’ پر بھی گفتگو ہوئی، ہم نے انہیں بہت واضح طور پر کہا کہ یہ اس معاہدے کا حصہ ہے جس پر عملدرآمد ضروری ہے۔’
قطری وزیراعظم نے کہا کہ ’ ہماری نظر میں، جب سے یہ معاملہ شروع ہوا (7 اکتوبر 2023 سے آج تک) اگر آپ پورے عمل کو دیکھیں، تو ہم نے بے شمار چیلنجز اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، یہ آسان راستہ نہیں تھا، ہم نے اپنی پوری کوشش کی کہ پہلے، دوسرے، اور اب اس تیسرے جنگ بندی معاہدے کو یقینی بنائیں جو، امید ہے، برقرار رہے گا۔’
شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم آل ثانی نے اس واقعے کو ’ انتہائی مایوس کن اور افسوسناک’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’ ہم نے فوراً ردعمل دیا اور امریکا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں کام کیا، ہم نے دیکھا ہے کہ امریکا بھی اس معاہدے کے لیے پرعزم ہے۔’













لائیو ٹی وی