مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے آئینی عدالتوں کے قیام کی شق کی تجویز کی منظوری دیدی
سینیٹ وقومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی 27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالتوں کے قیام کی شق کی تجویز کی منظوری دیدی جب کہ زیر التوا مقدمات کے فیصلے کی مدت چھ ماہ سے بڑھا کرایک سال کرنے کی ترمیم کی تجویز منظور کرلی۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز27ویں ترمیم ایکٹ 2025 کا بل وفاقی کابینہ سے منظوری کے چند گھنٹے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس پر اپوزیشن نے مجوزہ تبدیلیوں کی رفتار اور دائرہ کار پر شور شرابہ کیا۔
اس بل میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے عمل میں تبدیلی، صوبائی کابینہ کے حجم میں اضافہ، اور فوجی قیادت کے ڈھانچے میں اصلاحات کی تجاویز شامل ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ چوہدری محمود بشیر ورک آج کے اجلاس کی مشترکہ صدارت کر رہے ہیں۔
قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں ہائی کورٹ کے ججوں کی منتقلی کے طریقہ کار کو بھی حتمی شکل دیے جانے کا امکان ہے جو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے ذریعے انجام پائے گا اور ممکنہ طور پر اس میں منتقل ہونے والے ججوں کی رضامندی درکار نہیں ہوگی۔
گزشتہ روز سینیٹ اجلاس کے دوران ہی کمیٹیوں نے بل پر غور کے لیے ایک ان کیمرہ مشترکہ اجلاس بھی منعقد کیا، تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ایم این اے عالیہ کامران اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
قائمہ کمیٹیوں نے مجوزہ بل کا تقریباً 80 فیصد حصہ منظور کر لیا، جس میں عدالتی اصلاحات پیکیج کی زیادہ تر شقیں شامل تھیں۔
تاہم، آئین کے آرٹیکل 243 (مسلح افواج کی کمان) کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کی حیثیت پر غور و خوض آج کے اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔
اجلاس سے قبل، سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بل کی تمام شقوں پر آج تفصیلی غور کیا جائے گا اور ہمیں پوری امید ہے کہ ہم آج ہی یہ عمل مکمل کر لیں گے۔
جب ان سے مختلف حکومتی اتحادی جماعتوں کی تجاویز اور اس بارے میں پوچھا گیا کہ آیا ’صدر اور وزیرِ اعظم کو استثنیٰ دینے کے معاملے پر دو جماعتیں آمنے سامنے آ گئی ہیں‘ تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ تمام جماعتوں کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی تجاویز پر آج کے اجلاس میں غور کیا جائے گا جب کہ فیصلے اس بنیاد پر کیے جائیں گے کہ اکثریت کی رائے کیا ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے امید ظاہر کی کہ بل کا مسودہ آج شام 5 بجے تک حتمی شکل دے دیا جائے گا۔
آج کے اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بریسٹر عقیل ملک سمیت دیگر اراکین شریک ہیں۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر خلیل طاہر سندھو، عوامی نیشنل پارٹی کے ہدایت اللہ خان، اور پیپلز پارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی قاسم گیلانی اور سید ابرار علی شاہ بھی مشترکہ اجلاس کا حصہ تھے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کی ایم این اے شمیلہ رانا نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
قاسم گیلانی نے ایکس پر لکھا ’پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف کا دوسرا دن‘۔
ایک اور پوسٹ میں انہوں نے خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم بنیادی طور پر 5 اہم نکات پر مرکوز ہے:
- وفاقی آئینی عدالت کا قیام
- ججوں کی منتقلی (آرٹیکل 200)
- خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخاب سے متعلق بے ضابطگی کا خاتمہ
- چھوٹے صوبوں کے مطالبے پر کابینہ کے حجم میں 2 فیصد اضافہ
- آرٹیکل 243 میں دفاعی خدمات اور صدر کو استثنیٰ سے متعلق ترامیم
پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی نے مزید کہا کہ دیگر تمام تبدیلیاں صرف نتیجتاً کی جانے والی ترامیم ہیں۔
گزشتہ روز کے اجلاس کے بعد وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ تمام پارلیمانی جماعتیں اس عمل میں شریک ہیں اور حکومت نے حزبِ اختلاف سے بھی تعمیری انداز میں حصہ لینے کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک دونوں ایوانوں کے تمام ارکان کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہو جاتا، بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
سینیٹ اجلاس
سینیٹ کا اجلاس آج دوپہر 3 بجے طلب کر لیا گیا ہے، جس کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے، 27ویں ترمیم بل پر غور کرنا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کو منظور کرانے کے لیے غیر معمولی تیزی دکھا رہی ہے۔
تحریکِ انصاف کے پارلیمانی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی میں اس بل پر بحث کرنا نامناسب ہے، انہوں نے حکومت اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ ترمیمات کو جلد بازی میں منظور کرانے کے درپے ہیں۔
انہوں نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ یہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر ضرب لگاتی ہیں، عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہیں، اور 1973 کے آئین کے ذریعے بڑی احتیاط سے قائم کیے گئے اختیارات کے نازک توازن کو مجروح کرتی ہیں۔
تاہم، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کا بل بغیر مناسب بحث کے جلدی میں آگے بڑھایا گیا، ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ مسودے پر تفصیلی جانچ پڑتال کی جا چکی ہے۔












لائیو ٹی وی