سینیٹ کا اجلاس شروع، 27 ویں ترمیم آج ہی منظور کیے جانے کا امکان
سینیٹ کا اجلاس اس وقت جاری ہے، جہاں دونوں ایوانوں کی قانون و انصاف اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی جانب سے آئین کی 27ویں ترمیم کے بل پر رپورٹ پیش کیے جانے کی توقع ہے۔
اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق سینیٹ کی قانون و انصاف اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک آئین کی 27ویں ترمیم کے بل پر رپورٹ پیش کریں گے۔
حکومت نے آج ہی منطوری لینے کی ٹھان لی
حکومت نے ستائیسویں آئینی ترمیم آج ہی پارلیمان سے منظور کرانے کی ٹھان لی, سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم پر بحث کا آغاز ہوگیا، پریذائیڈنگ افسر منظور کاکڑ نے ترمیم پر بحث کا آغاز کرا دیا۔
اجلاس کا آغاز سینیٹر منظور کاکڑ کی صدارت میں ہوا، جب کہ چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کی غیر موجودگی میں کارروائی جاری رہی۔
ابتدا میں اُنہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے کچھ تقاریر کل پیش نہیں کی جا سکیں، اور آج کی کارروائی انہی تقاریر سے شروع ہوگی۔
اس کے بعد انہوں نے پی ایم ایل این کے آغا شاہ زیب درانی کو فلور دیا، جن کی تقریر بار بار حزب اختلاف کی بینچوں کی جانب سے روکی جاتی رہی۔
اپنی تقریر کے دوران آغا شاہ زیب درانی نے کہا کہ حزب اختلاف نے سوال کیا تھا کہ آئینی عدالت کی ضرورت کیا ہے؟ انہوں نے اس ضرورت کو سپریم کورٹ میں مقدمات کے بیک لاگ کی مثال دے کر جواز فراہم کیا، انہوں نے حزب اختلاف، خاص طور پر پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی مدت کے دوران ’جمہوریت کو ختم کیا‘ اور ’ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل کر دیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کسی ذات کا نہیں ملک و قوم کا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کیوں نہیں کرائے، پی ٹی آئی میں صبر کا مادہ نہیں، خاموشی اور صبر سے بات سنیں۔
کتنے ووٹ درکار ہیں؟
آئینی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، لہٰذا جب سینیٹ میں بل پر ووٹ ہوگا، جس میں 96 اراکین ہیں، تو کم از کم 64 سینیٹرز کی حمایت درکار ہوگی۔
تاہم، حکمران اتحاد کو ایوان بالا میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے، 61 سینیٹرز کے ساتھ اتحاد کو بل کی منظوری کے لیے حزب اختلاف کے کم از کم 3 ووٹ درکار ہوں گے۔
سینیٹ کی منظوری کے بعد، بل پر قومی اسمبلی (این اے) میں بھی ووٹ ہونا ہے، جس کا اجلاس آج شام 4:30 بجے مقرر ہے۔
336 رکنی قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے، اس کے پاس 233 اراکین ہیں جبکہ حزب اختلاف کے پاس 103 ہیں۔
حکومتی اتحاد کے اندر پی ایم ایل این کے 125، پی پی پی کے 74، ایم کیو ایم-پی کے 22، پی ایم ایل-کیو کے 5، استحکامِ پاکستان پارٹی کے 4، اور پی ایم ایل-زیڈ، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی کی ایک ایک نشست ہے۔
بل کی قائمہ کمیٹیوں سے منظوری
یہ بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے درمیان اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے چند گھنٹے بعد سینیٹ میں ہفتے کے روز پیش کیا تھا، اسے وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور فیلڈ مارشل کے عہدے کو عمر بھر کے لیے برقرار رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار اجلاس میں شریک تھے، انہوں نے کہا تھا کہ تمام اہم ترامیم، بشمول آرٹیکل 243 میں تبدیلیاں، جو کہ وفاقی حکومت کو ’فوج پر کنٹرول اور کمانڈ رکھنے‘ سے متعلق ہے اور عسکری کمانڈ اسٹرکچر سے تعلق رکھتی ہیں، دونوں کمیٹیوں نے خوش اسلوبی سے منظور کر لی ہیں۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بل معمولی ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا گیا ہے، کمیٹیوں نے انہیں اور قانون وزیر کو چند ترامیم کرنے کا اختیار دیا ہے۔
تاہم، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی تجویز میں مقامی حکومتوں سے متعلق آرٹیکل 140 میں ترمیم کی سفارش، اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی خیبر پختونخوا کے نام کی تبدیلی کی تجویز کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔
اے این پی نے تجویز دی تھی کہ صوبے کے نام سے ‘خیبر’ کو ہٹایا جائے کیوں کہ خیبر ایک ضلع ہے اور دیگر صوبوں کے نام میں اضلاع کے نام شامل نہیں ہیں، اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کی تجویز کہ صوبے کی پارلیمنٹ میں نشستیں بڑھائی جائیں، اسے بھی مؤخر کر دیا گیا۔
دن کے آغاز میں، اے این پی کے ہدایت اللہ خان نے صحافیوں سے کہا کہ کمیٹی نے ان کے پارٹی کی تجویز پر خیبر پختونخوا کے نام کی تبدیلی کے لیے پیر تک وقت مانگا ہے۔
ادھر وزیر قانون نے صحافیوں کو بتایا کہ خیبر پختونخوا کے نام کی تبدیلی کے معاملے میں صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
وزیراعظم نے استثنیٰ کی شق مسترد کر دی
آئین کی 27ویں ترمیم کے بل میں وزیراعظم کے لیے استثنیٰ کی تجویز بھی شامل تھی، لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کو اس کی واپسی کا حکم دیا اور کہا کہ وزیراعظم کو ’مکمل طور پر جواب دہ‘ رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آذربائیجان سے واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ ہماری پارٹی کے کچھ سینیٹرز نے وزیراعظم کے لیے امیونٹی کی ترمیم جمع کروائی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اصولی طور پر، ایک منتخب وزیراعظم کو عدالت اور عوام دونوں کے سامنے مکمل طور پر جواب دہ رہنا چاہیے۔
اسی دن بعد میں، وزیراعظم نے اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس میں اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کے لیے عشائیہ بھی دیا اور انہیں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے آئین کی 27ویں ترمیم کے بل کی منظوری پر مبارکباد دی۔
وزیراعظم شہباز نے کہا کہ وہ تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہان اور صدر آصف علی زرداری کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب نے ملک کے وسیع تر مفاد میں، وفاق کو مضبوط بنانے، صوبوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے اور حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے متحدہ کوششیں کی ہیں۔












لائیو ٹی وی