حسینہ واجد کے حالیہ انٹرویوز میں کسی افسوس یا پشیمانی کا شائبہ نہیں ملا
بنگلہ دیش کی برطرف وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے تحریری انٹرویوز میں کسی قسم کے پشیمانی کے آثار نہیں ملتے، ان میں کوئی افسوس ہے اور نہ ہی احساس جرم کی کوئی رمق۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حسینہ واجد کے یہ انٹرویوز گزشتہ ہفتے بھارتی میڈیا بشمول ہندستان ٹائمز، نیو انڈین ایکسپریس اور دی ہندو میں شائع ہوئے، یا پھر رائٹرز، اے ایف پی اور 29 اکتوبر کو برطانیہ کے انڈیپنڈنٹ کے ذریعے سامنے آئے، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ 5 اگست 2024 سے بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی سابق وزیراعظم اپنے اعمال پر خود احتسابی یا خود اعتمادی کی کمی کے کسی بھی شائبے سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔
بھارت میں شائع ہونے والے دی ویک کے ایک کالم میں شیخ حسینہ نے اپنے ہی دورِ حکومت کے دوران تباہ کیے گئے اداروں کی نااہلی پر تنقید کی ہے، انہوں نے عبوری حکومت پر الزام لگایا کہ اسے عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں، حالانکہ وہ خود طویل عرصے تک من گھڑت انتخابات کے ذریعے اقتدار میں رہی تھیں۔
انہوں نے بی این پی پر شدید تنقید کی کہ وہ نگراں حکومت کے نظام کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ یہ نظام ان کی حکومت نے پہلے ہی ختم کر دیا تھا، پورے کالم میں ان کی یہ غلط فہمی واضح ہے کہ وہ خود مظلوم سمجھی جا رہی ہیں۔
کالم میں حسینہ نے اپنی حکومت کی کسی بھی بڑی غلطی کو تسلیم کرنے سے گریز کیا، سوائے ایک بیان کے جس کا ذکر انہوں نے اپنے تحریری انٹرویوز میں بھی کیا تھا، انہوں نے لکھا کہ ’میں ہر اس بنگلہ دیشی کی موت پر افسوس کا اظہار کرتی ہوں جس کی جان 2024 کے احتجاج کے دوران بلاوجہ گئی، اگرچہ قانون نافذ کرنے والے زیادہ تر اہلکار اپنے قواعد کے مطابق عمل کر رہے تھے، تاہم کچھ سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے تشدد کے بڑھتے ہوئے حالات میں واضح غلطیاں ہوئیں‘۔
حسینہ آگے لکھتی ہیں کہ صورتحال بہت غیر مستحکم اور کشیدہ تھی، اور کمانڈ چین میں نظم و ضبط کے ٹوٹنے کے واضح واقعات بھی سامنے آئے، مگر وہ واضح کرتی ہیں کہ ’عوامی لیگ قطعی طور پر اس الزام کو مسترد کرتی ہے کہ ہم براہِ راست یا احکامات دے کر اپنے شہریوں پر طاقت کے جان لیوا استعمال کے ذمہ دار تھے‘، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر یہ یقینی بنایا کہ کوئی آتشیں اسلحہ استعمال نہ ہو۔
تمام انٹرویوز میں حسینہ نے الزامات، فون کالز کی آڈیو کلپس کو یا تو فرضی یا سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کردہ قرار دیا، اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی اس رپورٹ کو مبالغہ آرائی پر مبنی قرار دیا جس میں جولائی کے احتجاج میں 1400 افراد کی ہلاکتیں ظاہر کی گئی تھیں۔
ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ میں وزیرِ اعظم کے دفتر سے ہر لمحے کی حکمت عملی پر براہِ راست کنٹرول کر رہی تھی، سیکیورٹی فورسز کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بنیادی طور پر غلط سمجھنا ہے، میں بار بار کہتی ہوں کہ میں نے کبھی بھی ہجوم پر فائرنگ کی اجازت نہیں دی‘۔
لیکن ڈیلی اسٹار کی تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ حسینہ واجد نے ذاتی طور پر جان لیوا ہتھیار استعمال کرنے کے احکامات دیے، 18 جولائی 2024 کی ایک فون ریکارڈنگ میں وہ اپنے بھتیجے، جنوبی ڈھاکا کے سابق میئر شیخ فضل نور تاپوش کو کہتی ہیں کہ ’میں نے ہدایات دے دی ہیں، اب براہِ راست ہدایات دی ہیں، اب وہ مہلک ہتھیار استعمال کریں گے، جہاں کہیں بھی انہیں (احتجاج کرنے والے) ملیں گے، وہ براہِ راست فائر کریں گے‘۔
78 سالہ سابق رہنما نے پناہ فراہم کرنے پر بھارت سے اظہار تشکر بھی کیا، انہوں نے کہاکہ ’میں بھارتی عوام کی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے مجھے محفوظ پناہ گاہ فراہم کی، ہمارے دونوں ممالک کے تعلقات وسیع اور گہرے ہیں، ہم بھارت کے قابل اعتماد شراکت دار ہونے پر فخر کرتے ہیں‘۔
بین الاقوامی اداروں اور برطانیہ کے اخبار کے ساتھ ان کے انٹرویوز نسبتاً متوازن دکھائی دیتے ہیں، مگر بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والے انٹرویوز زیادہ اشتعال انگیز ہیں، حسینہ نے اپنی جلد روانگی کی وجوہات یا جولائی کے احتجاج سے قبل کے مہینوں کے غیر معمولی تشدد پر روشنی ڈالنے سے گریز کیا، انٹرویوز میں ان کی 17 سالہ حکمرانی کے دوران بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی آمرانہ صورتحال کا ذکر بھی نہیں۔
انٹرویوز اور کالم میں محمد یونس کی زیر قیادت حکومت کو غاصب کے طور پر پیش کیا گیا ہے، بغیر اس اعتراف کے کہ عوامی لیگ کی حکومت نے مظاہرین اور عوام میں بے چینی پیدا کی تھی، بنیادی پیغام یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں عوامی لیگ کی شمولیت ضروری ہوگی، جس کی سرگرمیوں پر اس وقت پابندی ہے۔
انٹرویوز اور کالم کی اشاعت حسینہ کے میزبان ملک کے علم یا منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھی، سابق وزیرِ اعظم کے اس اقدام کو موجودہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حسینہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ جولائی کے احتجاج کے دوران سیکڑوں ہلاکتوں اور ہزاروں زخمیوں کی ذمہ دار وہی ہیں، اور یہ انٹرویوز عوامی لیگ کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ناکافی ہیں، میزبان ملک کو بھی موجودہ حالات میں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو بنگلہ دیش کے عوام سے فاصلے کو بڑھائیں۔












لائیو ٹی وی