قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم پیش نہیں کی گئی، اجلاس کل صبح تک ملتوی
27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش نہیں کی گئی، اجلاس کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف جب بولنا شروع ہوئے تو اپوزیشن بنچوں کی طرف سے شور شرابے اور نعرے بازی سے ان کی تقریر میں خلل ڈالا گیا۔
صدر کے لیے استثنیٰ (immunity) کے موضوع پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ یہ سربراہ مملکت کے لیے کئی ممالک میں ایک معمول کی روایت ہے۔
انہوں نے اپوزیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومتی بنچوں پر تنقید کرنے والے کون ہوتے ہیں جب کہ ان کی صفیں ان لوگوں سے بھری پڑی ہیں جنہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
پی ٹی آئی کے اراکین نے ”گو زرداری گو“ اور ”زندہ باد عمران خان“ کے نعرے لگائے جبکہ سابق وزیر اعظم کو ”راجہ رینٹل“ قرار دیا۔
سینیٹ میں 27 ویں ترمیم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں پیش کی، جبکہ سینیٹ کے چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی نے کارروائی کی صدارت کی۔
بل کی منظوری سے قبل، اپوزیشن بنچوں نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت اور اس کے اتحادی شراکت داروں کے خلاف نعرے بازی کی۔ وفاقی وزیر قانون نے ترمیم پیش کرنے شروع کی تو اسی دوران قانون سازوں نے بل کی نقول کو پھاڑ دیا اور اعظم نذیر تارڑ کی میز کی طرف اچھال دیا۔
زیادہ تر اپوزیشن ارکان نے اس کے بعد واک آؤٹ کیا، جس سے بل کی آسانی سے منظوری کی راہ ہموار ہوئی۔
پارلیمانی کمیٹیوں سے منظوری
سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹیوں کے ایک مشترکہ اجلاس—جس کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا—نے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ 27ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کر لیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے ان تبدیلیوں کے بارے میں ایوان بالا کو ایک رپورٹ پیش کی۔
یہ بل، جسے اعظم نذیر تارڑ نے ہفتے کے روز اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے چند گھنٹوں بعد سینیٹ میں پیش کیا تھا، کا مقصد ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام اور فیلڈ مارشل کے عہدے کو تاحیات حیثیت دینا ہے۔
اتوار کو، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹیوں کے ایک مشترکہ اجلاس نے اپوزیشن کے بائیکاٹ کے درمیان معمولی تبدیلیوں کے ساتھ 27ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کر لیا تھا۔
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، جنہوں نے اجلاس میں بھی شرکت کی، نے کہا کہ تمام اہم ترامیم، بشمول آرٹیکل 243 میں تبدیلیاں، جو وفاقی حکومت کو ”مسلح افواج پر کنٹرول اور کمانڈ حاصل ہو گی“ اور فوجی کمانڈ کے ڈھانچے سے متعلق ہیں، کو دونوں کمیٹیوں نے خوش اسلوبی سے منظور کر لیا۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک، جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، نے کہا کہ بل کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اپنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹیوں نے انہیں اور وزیر قانون کو چند ترامیم کرنے کا اختیار دیا۔
تاہم، کمیٹیوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی آرٹیکل 140 میں ترمیم کی تجویز کو مؤخر کر دیا، جو بلدیاتی حکومتوں سے متعلق ہے، نیز عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی ) کی خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی سفارش کو بھی مؤخر کر دیا گیا۔
اے این پی نے صوبے کا نام ’خیبر‘ کو ہٹا کر تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی تھی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ خیبر ایک ضلع ہے اور دیگر صوبوں کے ناموں میں ضلع کے نام شامل نہیں ہیں۔ اسی طرح، بلوچستان نیشنل پارٹی کی پارلیمنٹ میں صوبے کی نشستوں میں اضافہ کی مجوزہ ترمیم کو بھی مؤخر کر دیا گیا۔
اس سے قبل دن میں، اے این پی کے ہدایت اللہ خان نے رپورٹرز کو بتایا کہ کمیٹی نے ان کی پارٹی کی خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پر فیصلہ کرنے کے لیے پیر تک کا وقت مانگا ہے۔ دریں اثنا، وزیر قانون نے رپورٹرز کو بتایا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔












لائیو ٹی وی