بنگلہ دیش نے بھارت سے حسینہ واجد کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ کردیا
بنگلادیش نے بھارت میں روپوش سابق وزیرِ اعظم حسینہ واجد کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ کر دیا ہے، یہ اقدام اُس وقت سامنے آیا ہے جب ڈھاکا کی ایک عدالت نے چند گھنٹے قبل ہی انہیں عدم موجودگی میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں سزائے موت سنائی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی ایک بار پھر نمایاں ہو گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش نے پیر کو بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برطرف کی گئی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کو واپس بھیجے، کیونکہ چند گھنٹے پہلے ہی عدالت نے انہیں انسانیت کے خلاف جرائم پر پھانسی کی سزا سنائی ہے۔
78 سالہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکمرانی کو بھارت کی حمایت حاصل تھی، اگست 2024 میں عوامی احتجاج کے دوران وہ اقتدار سے ہٹائی گئیں اور بھارت چلی گئیں، جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوگئے اور وہ اب تک وہیں روپوش ہیں۔
اس سے قبل دن کے آغاز میں ڈھاکا کی ایک عدالت نے حسینہ واجد اور سابق وزیرِ داخلہ اسدالزمان خان کمال کو عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی، دونوں پر الزام تھا کہ انہوں نے گزشتہ سال طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کو دبانے کے لیے سخت کارروائی کی، جس میں کئی لوگ مارے گئے اور یہ کارروائی انسانیت کے خلاف جرم ثابت ہوئی۔
جج غلام مرتضیٰ مزومدر نے عدالت کو بتایا کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے جا چکے ہیں۔
عدالت کے مطابق حسینہ واجد کو تین الزامات پر قصوروار ٹھہرایا گیا، لوگوں کو تشدد پر اکسانا، قتل کا حکم دینا اور ظلم روکنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھانا۔
جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ایک ہی سزا ہے اور وہ موت کی سزا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد دارالحکومت میں لوگوں نے قومی پرچم لہرا کر جشن منایا۔
سابق پولیس چیف چوہدری عبداللہ المامون، جو عدالت میں موجود تھے اور جنہوں نے اپنا جرم مان لیا تھا، انہیں 5 سال قید کی سزا دی گئی۔
حسینہ واجد نے بھارت میں روپوشی سے ایک بیان جاری کیا اور فیصلے کو جانبدار اور سیاسی قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف فیصلہ پہلے ہی طے تھا۔
ان کے وکیل کے مطابق اگر وہ خود کو حکام کے حوالے کر دیں یا گرفتار ہو جائیں تو وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہیں۔
فوٹو جرنلسٹ شمسی آرا زمان کے بیٹے کو گزشتہ سال مظاہروں کے دوران قتل کیا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ سزائے موت کے فیصلے سے تو خوش ہیں، مگر اس بات پر افسوس ہے کہ سابق پولیس چیف کو صرف پانچ سال قید ہوئی۔
بھارت کا ردِعمل
بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ حسینہ واجد سے متعلق عدالتی فیصلے سے باخبر ہے۔
جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ بھارت، بنگلہ دیش کی عوام کے مفاد جیسے امن، جمہوریت، شمولیت اور استحکام کے لیے ہمیشہ تعاون کرے گا، تاہم بھارت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ حسینہ واجد کو واپس کرے گا یا نہیں۔
حسینہ واجد کے 15 سالہ دورِ حکومت میں انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیاں ہوئیں، ان پر سیاسی مخالفین کو بڑی تعداد میں گرفتار کرنے اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی لگتے رہے۔
گزشتہ سال بنگلہ دیش نے کہا تھا کہ وہ حسینہ واجد کے خلاف انٹرپول کا ریڈ نوٹس جاری کرنے کی درخواست کرے گا، لیکن انٹرپول کی فہرست میں ان کا نام موجود نہیں تھا۔
حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک سیاسی بحران کا شکار ہے اور فروری 2026 میں ہونے والے انتخابات کی مہم بھی تشدد سے متاثر ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق حسینہ واجد کے اقتدار بچانے کی کوششوں کے دوران کریک ڈاؤن میں تقریباً ایک ہزار 400 لوگ مارے گئے اور یہی اموات ان کے مقدمے کا بڑا حصہ تھیں۔
تاریخی فیصلہ
اٹارنی جنرل محمد اسدالزمان نے کہا کہ یہ مقدمہ شہدا کا حق ادا کرتا ہے، جب کہ بنگلہ دیش کے نگراں سربراہ محمد یونس نے بھی اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا۔
انہوں نے بیان میں کہا کہ حسینہ واجد اور اسدالزمان خان کمال کو انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت دینا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ پرامن رہیں اور کسی بھی ایسے عمل سے بچیں جو عوامی نظم و ضبط کو خراب کرے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم میں سزا دینا متاثرین کے لیے اہم قدم ہے، مگر انہیں موت کی سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان روینا شمداسانی نے کہا کہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد سے وہ بار بار مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ تمام مجرم، چاہے وہ اعلیٰ عہدوں پر ہی کیوں نہ ہوں، بین الاقوامی قانون کے مطابق جوابدہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ متاثرین کو انصاف اور مناسب معاوضہ بھی ملنا چاہیے۔
ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ اس نوعیت کے مقدمات میں ٹرائل بالکل منصفانہ ہونا ضروری ہے اور بین الاقوامی معیار پر پورا اترنا چاہیے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ وہ سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں اور اس فیصلے پر افسوس ہے، کیونکہ اقوام متحدہ ہر حال میں موت کی سزا کے خلاف ہے۔
گہرا بحران
جس دن یہ فیصلہ سنایا گیا اس دن سیکیورٹی بہت سخت تھی، عدالت کے اردگرد فورسز تعینات تھیں، بکتر بند گاڑیاں چیک پوائنٹس پر کھڑی تھیں اور ہزاروں پولیس اہلکار پورے شہر میں گشت کر رہے تھے۔
اسی مہینے ڈھاکا میں کئی خام بم پھینکے گئے تھے جن میں زیادہ تر پیٹرول بم تھے، ان حملوں میں محمد یونس کی حکومت سے منسلک عمارتیں، بسیں اور مسیحی عبادت گاہیں تک نشانہ بنائی گئیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات بہت بڑے ہیں اور اس کے بعد حسینہ واجد کے دوبارہ سیاست میں واپسی کے امکانات تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
آئی سی جی کے تجزیہ کار تھامس کین نے کہا کہ اس پورے عمل پر تنقید بھی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدم موجودگی میں ہونے والے مقدمات ویسے ہی متنازع سمجھے جاتے ہیں اور اس کیس میں جس تیزی سے کارروائی ہوئی اور دفاع کے لیے محدود وسائل ہونے کی وجہ سے ٹرائل کی منصفانہ نوعیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ باتیں حسینہ واجد کے کیے گئے اقدامات کو کم کر کے پیش کرنے یا نظرانداز کرنے کی وجہ نہیں بن سکتیں۔












لائیو ٹی وی