شنگھائی ایئرپورٹ پر ارونا چل پردیش کی رہائشی خاتون کو روکنے پر بھارت اور چین میں تنازع
نئی دہلی نے بیجنگ کے اروناچل پردیش پر دعوے کے جواب میں کہا ہے کہ یہ علاقہ بھارت کا ’لازمی اور ناقابلِ تنسیخ حصہ‘ ہے، یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک شنگھائی ایئرپورٹ پر ایک خاتون کی حراست کے معاملے پر تنازع میں مبتلا ہوئے۔
منگل کو بھارت نے شنگھائی ایئرپورٹ پر اروناچل پردیش کی رہائشی، برطانیہ میں مقیم خاتون پریما وانگجوم تھونگڈوک کی حراست پر چین کے سامنے احتجاج درج کرایا تھا، تھونگڈوک نے کہا تھا کہ امیگریشن اہلکاروں نے انہیں 18 گھنٹے تک روکا اور یہ کہہ کر تضحیک کی کہ یہ علاقہ بھارت کا حصہ نہیں ہے۔
چین کا موقف ہے کہ اروناچل پردیش، جسے بیجنگ زانگنان کہتا ہے، جنوبی تبت کا حصہ ہے، اس دعوے کو بھارت بارہا مسترد کر چکا ہے، بیجنگ نے اس شمال مشرقی ہمالیائی ریاست کے مقامات کے نام کئی بار تبدیل کیے ہیں، جس پر نئی دہلی کی طرف سے سخت ردعمل آیا ہے۔
منگل کے روز ایک پریس بریفنگ میں چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ زانگنان، چین کی سرزمین ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی فریق نے کبھی بھارت کی طرف سے غیر قانونی طور پر قائم کیے گئے اس فرضی ’اروناچل پردیش‘ کو تسلیم نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شنگھائی پوڈونگ بین الاقوامی ہوائی اڈے پر خاتون کی ’حراست یا ہراسانی‘ کا کوئی معاملہ نہیں تھا اور تمام جانچ قانونی دائرہ کار میں کی گئی۔
بعد ازاں منگل کی رات جاری بیان میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ نئی دہلی نے تھونگڈوک کی ’من مانی حراست‘ کے بارے میں چین کے بیانات دیکھے ہیں۔
رندھیر جیسوال نے کہا کہ اروناچل پردیش بھارت کا لازمی اور ناقابلِ تنسیخ حصہ ہے، اور یہ ایک واضح حقیقت ہے، چینی فریق کی کسی بھی قسم کی تردید اس ناقابلِ تردید حقیقت کو بدل نہیں سکتی۔
خاتون کی حراست کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ چینی حکام کے ساتھ سختی سے اٹھایا گیا، جنہوں نے اب تک اپنے اقدامات کی وضاحت نہیں کی، جو بین الاقوامی ہوائی سفر سے متعلق کئی کنونشنز کی خلاف ورزی ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ چینی حکام کے اقدامات اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں، جو تمام ممالک کے شہریوں کے لیے 24 گھنٹے تک ویزا فری ٹرانزٹ کی اجازت دیتے ہیں۔
تنازع اور تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں
حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان تنازع اس وقت پیدا ہوا تھا، جب تھونگڈوک نے دعویٰ کیا کہ 21 نومبر کو شنگھائی ایئرپورٹ پر انہیں 18 گھنٹے تک روکا گیا ہے۔
تھونگڈوک نے کہا کہ وہ بھارتی شہری ہیں، جو تقریباً 14 سال سے برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں، اور لندن سے جاپان کے سفر کے دوران شنگھائی ایئرپورٹ پر امیگریشن عملے نے انہیں روکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے میرے بھارتی پاسپورٹ کو غیر معتبر کہا کیونکہ میری پیدائش اروناچل پردیش میں ہوئی، جسے وہ چینی علاقہ کہتے ہیں‘۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر 23 نومبر کو یہ بیان دیا، جس میں انہوں نے چینی امیگریشن اہلکاروں اور چائنا ایسٹرن ایئرلائنز کے عملے کا حوالہ دیا۔
پریما تھونگڈوک نے کہا کہ انہوں نے شنگھائی اور بیجنگ میں بھارتی سفارتخانوں سے رابطہ کیا، جس کے نتیجے میں حکام نے مداخلت کر کے انہیں ملک سے نکلنے میں مدد کی۔
تھونگڈوک کے مطابق امیگریشن اہلکاروں نے ان کا ویزا ناقابل قبول قرار دیا اور انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا، اور چینی اہلکاروں نے کہا کہ اروناچل پردیش بھارت کا حصہ نہیں ہے، آپ چینی ہیں، آپ بھارتی نہیں ہیں۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اگست میں 7 سال بعد پہلی بار چین کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ وعدہ کیا کہ دونوں ممالک شریک کار ہیں، حریف نہیں۔
بھارت اور چین کے درمیان 3 ہزار 800 کلومیٹر لمبی سرحد ہے جو غیر واضح حد بندی والی ہے اور 1950 کی دہائی سے متنازع رہی ہے۔
دونوں ملکوں کے تعلقات 2020 میں ہمالیہ میں ایک جھڑپ کے بعد خراب ہو گئے تھے، اس دوران میں جھڑپ میں 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔













لائیو ٹی وی