مجھے تو میرا پاکستان چاہیئے

شائع November 8, 2012

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

اہالیانِ کراچی کے نام پر وال چاکنگ تو دیواروں پر آئے دن نظر آہی جاتی تھی ۔اب کچھ دنوں سے اہالیانِ پاکستان کی جانب سے شہر بھر میں بڑے بڑے بل بورڈز لگے ہیں کہ آپ کو کونسا پاکستان چاہیئے قائدِ اعظم کا یا پھر طالبان کا؟

میں بھی کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ اب یہ کو نسے اہالیان ہیں۔ تو اہالیان خود ہی اہالیان کی نقاب اتار کر سامنے آگئے ہیں اور ملک میں ریفرنڈم کا اعلان کردیا ہے۔ ایک تو ریفرنڈم کے نام سے ہم تب واقف ہوئے جب ایک ڈکٹیٹرنے اپنے آپ کو دوام بخشنے کے لیے ریفرنڈم کا ڈھونگ رچایا۔ پھر دوسری بار بھی ایک اور ڈکٹیٹر نے عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ عوام میرے ساتھ ہے ایک دفعہ پھر ریفرنڈم کروایا اور جس میں اپنے خانصاحب بھی سب سے آگے آگے تھے اور اس ڈکٹیٹر کو دوام دلانے کے بعد کچھ ہاتھ نا لگنے پر پھر اسی ڈکٹیٹرکے خلاف تحریک میں بھی وہی سب سے آگے تھے۔

اب پھر ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے۔ ایسا ہے کہ آپ کو دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، قائدِ اعظم کا پاکستان یا طالبان کا پاکستان؟ اب دیکھیں قوم کیا رائے دیتی ہے۔لیکن مجھے تو کچھ اور نہیں چاہیے بس مجھے میرا پاکستان چاہیے۔قائدِ اعظم، مذہب ، قومیت اور ایسے کئی ناموں سے، میں بہت بیوقوف بن چکا۔ اب اگر دلا سکتے ہیں تو مجھے میرا پاکستان واپس دلا دیجیے۔

جس میں امن امان ہو۔ جس میں بچے گلیوں میں کھیل سکتے ہوں انکےوالدین کو انکے اغوا یا اٹھ جانے کا خوف نا ہو۔ گلی کوچوں میں بیریئر نا لگے ہوں، ناہی قدم قدم پر رکاوٹیں ہوں۔ شوہر بھائی دفتر کے لیے نکلیں تو ماؤں ، بیٹیوں، بہنوں اوربیویوں کویہ دھڑکا نا لگا رہے کہ کب لوٹیں گے۔ لوٹیں گے بھی یا نہیں۔

جس میں راہ چلتے ،گلی کوچوں، بھرے بازار، حتیٰ کہ چوک میں سگنل کے انتظار میں کھڑی ٹریفک میں لٹ جانے کا ڈر بھی نا ہو۔لوگ علاقوں میں نا بٹے ہوں، مذہب اور قومیت کے بنیاد پر تفریق نا ہو۔ سب کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہو۔یہ نا ہو کہ جو میں بول رہا ہوں وہی سچ ہے ،باقی جو بول رہے ہیں وہ سب جھوٹ ہے۔ چھوٹےبڑے کا احترام ہو۔ صرف داڑھی کے پیچھے اور ٹوپی کے نیچے سر چھپانے سےکوئی عزت دار نا بن جاتا ہو۔ جس میں محنت کی کمائی کی عزت ہو۔ چاہے مزدور ہو یا چھابڑی والا گھر لوٹے تو اپنی محنت کی کمائی کے ساتھ اور صحیح سلامت۔ کوئی لائین میں لگ کے اپنی عزتِ نفس بیچ کر کھا نا نا کھاتا ہو۔ بلکہ اپنی محنت کی کمائی سے روکھی سوکھی کھا کر بھی سر اٹھاکر چلتا ہو۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

جس میں قانون نام کی بھی کوئی چیز ضرور ہو۔ جس کا لوگ تو احترام کرتے ہی ہوں لیکن اس کے بنانے اور نافذ کرنے والوں پر بھی قانون کا احترام لازم ہو۔ پولیس کا کام صرف حکمرانوں اور اس کے حواریوں کی حفاظت نا ہو بلکہ اس ملک کے عام شہری بھی اس کی ذمیداری ہوں۔ عوام کے نمائندے عوام کو جوابدہ ہوں نا کہ اس ملک کے اصل حکمرانوں کے، جن کی اجازت کے بغیر پتہ بھی ہل نہیں سکتا۔ اور جو خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں ان کو عوام سے اتنا خوف نا ہو کہ سوائے پولیس اور رینجرز کے پہرے کے کہیں نکل بھی نا سکتے ہوں۔

مجھے میرا پاکستان چاہیئے جو ہتھیاروں سے بالکل پاک ہو۔ہتھیار جو اب بچے بچے کے ہاتھ لگ گیا ہے اس کی جگہ کتا ب ہو جو بچے بچے سے چھین لی گئی ہے۔ جس نے کتاب چھین کے بچوں کے ہاتھ میں ہتھیا ر دے دیے ہیں، اسے چاہیے کے وہ ہمارے بچوں کو انکی کتابیں واپس کریں۔ اسکول کالیج اور یونیورسٹی پڑھنے اور سیکھنے کے لیے ہوں نا کہ ان ہتھیاربند غنڈوں کے حوالے ہوں جو صرف اپنے نظریات کے پرچار اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر تعلیمی اداروں میں بھی راج کرتے ہیں اوراستاد ،پرنسپل اور وائیس چانسلر بھی انہی کے احکام کے طابع ہیں۔

مجھے میرا پاکستان چاہیے کہ جس میں تعلیم ہر ایک کا حق ہو، غریب کا بیٹابھی پڑھ لکھ کر اپنی صلاحیت کی بنیاد پر افسر بن سکتا ہو۔ کوٹا سسٹم نہیں ہواور اہلیت ہی کی بنیاد پر داخلے بھی ملتے ہوں توعہدے بھی۔ رشتیداریوں،تعلقات، حسب نسب، سیاست یا پھر رشوت پر عہدے نا بکتے اور نا بٹتے ہوں۔ جہاں چپڑاسی سے لے کر افسر تک سب ہی اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھتے ہوں۔ وہ افسر نہیں چاہئیں جو دفاتر میں نہیں عوام کے نمائندوں کے ارد گرد پائے جاتے ہوں۔ جہاں صرف اختیارات پر لڑائی نا ہو، اختیارات کے ساتھ ساتھ فرائض بھی یاد ہوں۔اربابِ اختیار بانٹنے میں نہیں جوڑنے میں لگے ہوں۔ مجھے تو سب کچھ ایک چاہیے۔ جیسا پہلے تھا ،سب کچھ ایک دوسرے سے جڑا ہوا۔

جہاں صحت کی ذمیداری سرکار کی ہو، ایک ہی ہسپتال سےغریب بھی علاج کروائے تو امیر بھی۔ آجکل کی طرح نہیں کہ غریب کوجو ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں بھولے سے بھی نہیں ملتا وہ اسے شام کوپرائیویٹ ہسپتال میں ضرور مل جاتا ہے۔ تعلیم کی طرح علاج میں بھی تفریق آگئی ہے یا تو غریب سسک سسک کرجان دےیا پھر ادھاریں مانگ کر جان بچائے۔ دوائیاں آسمان کے تاروں کی طرح نا ہوں کہ صرف امیر آدمی ہی توڑ کر لاسکتا ہو۔

جہاں کھلے میدان ہوں، چوڑی سڑکیں ہوں، درخت ہوں۔اب تو زمین کا کوئی خالی ٹکڑا نظر آجائے تو اس پر بھی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں۔ فوٹ پاتھ نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہو ،جہاں پیدل چلنے والے بھی چل پھر سکتے ہوں۔ اب توپیدل چلنے والا اپنی ذمیداری پر چلے تو چلے باقی اگر کسی گاڑی شاڑی نے ماردیا تو پھر اس کی قسمت۔ بیچنے والے توسب کچھ بیچ چکے۔سڑکیں ہوں یا گلی کوچے، پرچی کٹوا ئینگے تو پارکنگ ملے گی ورنہ مارے مارے پھرتے رہیں۔ارباب اختیار ایک دن پودا لگاکر شجرکاری کے ہفتے کا افتتاح کرتے ہیں تو دوسرے دن سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر سالوں سے کھڑے درختوں کو کاٹ دیتے ہیں۔

جہاں جس کا جو بھی مذہب ہوعقیدہ ہو اس کا وہی ذمیدار ہو، اوروں نے اس کا ذمہ نہیں لے لیا ہو۔ سب اپنے اپنے مذہب اور عقیدے سے رہتے ہوں۔کسی کو کسی کے مذہب، عقیدے یا خیالات سے خطرہ نہ ہو ۔جہاں اختلاف رائے کا ہر ایک کو حق ہو۔ ایسا نا ہو کہ جو آپ سے اختلاف کرے، کافر، ملحد، غدار اور ملک دشمن جیسے القاب سے نوازا جائے اور اس کو اپنی جان کے لالے پڑجائیں۔

عورت کو بھی برابر کا درجہ ہو، اس کو بھی مرد کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کا حق ہو۔ سوچنے کا، سمجھنے کا اپنی رائے اور اپنی پسند نا پسند کے اظہار کا حق ہو۔ اسے بھیڑ بکریوں کی طرح جلسوں جلوسوں میں استعمال کرنے کی بجائے، اسے اپنی سوچ کے مطابق کہیں آنے یا جانے کا حق ہو۔ تعلیم، ملازمت کے ساتھ ساتھ اور صرف مخصوص شعبون میں نہیں، تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا بھی حق ہو ۔

گئس، پانی، بجلی بھی سب کے لیے برابر ہوں، یہ نا ہو کہ استعمال کوئی کرے اور بھرے کوئی اور۔ جس کا جو کام ہے وہ وہی کرتاہو نا کہ اپنے کام چھوڑ کر دوسروں کے کام سنبھالے ہوئے ہو۔ اور جس کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے اسے سرحدوں پر ہی ہونا چاہیئے ،نا کہ شہروں میں ڈیرا ڈال کر بیٹھ جائے۔ منصف، صرف انصاف ہی دیدیں تو بہتر ہے باقی دوسروں کا کام دوسروں پر چھوڑ دیں۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

ہتھیار جو امن کا بیری ہے اسےگھر گھر گلی گلی پھیلا دیا گیا ہے۔ اب توہم نےامن کے لیے ہتھیار بنانے اور بیچنے بھی شروع کردیے ہیں۔ مجھے تو ہتھیاروں سے پاک پاکستان چاہیئے کہ جس میں ادب ، فن اور موسیقی اور فنونِ لطیفہ کو ترجیح ہو کہ یہی چیزیں ہیں جو لوگوں میں نرمی پیدا کرتی ہیں۔ لکھنے پڑھنے والا پاکستان کہ جس میں کتب خانے ہوں۔سوچنے سمجھنے اور تحقیق کا رجحان ہو۔ ہماری نوجوان نسل جو بہت ہی با صلاحیت ہے لیکن بجائے اسکی صلاحیتوں کو اور نمو بخشنے کے ہم نے اسے ہتھیار دے دیئے ہیں کھیلنے کے لیے۔تفریح و طبع بھی صرف خواص کے لیے نہیں بلکہ عام آدمی کے لیے بھی ہو۔ تھیئٹر، موسیقی اور آرٹ سے صرف خواص ہی کیوںمحظوظ ہوتے ہیں۔ مجھے ایسا پاکستان چاہیئے کہ جس میں عام لوگ بھی محظوظ ہو سکیں۔

سب سے بڑی بات مجھے تو ایسا پاکستان چاہیئے کہ جس میں کوئی میری رائے پوچھے تو دھونس دھمکی سے نہیں کہ یہ چاہیے یا وہ؟ اور ویسے بھی اتنی کیا جلدی پڑی ہے، انتخابات آہی گئے ہیں۔ وہی اگر ڈھنگ سے کروادیں تو معلوم ہوجائے گا کہ عوام کو کیسا پاکستان چاہیئے۔

خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Sohail Sangi Nov 09, 2012 05:10am
This covers all basics with simple language, thought and formation. Wah Mr Abro you have really turned to be Columnist. I am afraid this attraction might push u away from ur art work. My love, regards for u and ur work.
bashir mangi Nov 10, 2012 11:07am
Khuda bux Abro.sahb ny to pori Qom ki tarjumani ki hy. ham bhi ye hi chahty hain aur demand karty hain.wel done. BASHIR MANGI, MARKAZI AUDITOR, SINDHI ABDI SANGAT SINDH.
Raza Nov 11, 2012 05:17pm
Assalmu Alaikum khuda bux Abro Mujeh mera pakistan Chhiyeh boht Acha laga yeh Baat bhi Such hai ke pakistan me Gareeb bhot camtaree ki Zindagi guzaar Raha hai Rozgar nahi hai Agar hai bhee To Halaat kharaab ka Rona hai Log Roz mar ta hai kisi ko bhi Ahsaas nahi Ahsas Hum Gareeb Logogo ko Hota hai (mujeh to bhot Afsos hota hai) magar in siyasat dano ko kab Ahsas ho ga Ap ko to Ahsas hai Hum jesa Gareeb Logo ka Ap bhot Achay Mozu par Awaz utatay hai

کارٹون

کارٹون : 26 جون 2025
کارٹون : 25 جون 2025