شکاگو میں دم توڑنے والی امید

شائع May 30, 2012

صدر زرداری کلنٹن سے ملاقات کے وقت۔ فائل فوٹو

آگر پاکستان کے امریکا کے ساتھ مسلسل بگڑتے ہوئے تعلقات کے بارے میں کوئی امید کی جاسکتی تھی تو وہ بھی شکاگو میں دم توڑ گئی۔

پھر اس پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو غدّاری کے الزام پر دی جانے والی سزا نے زخم پر نمک کا کام کیا جنہوں نے امریکی سینٹرل اینٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کو اسامہ بن لادن کے خاتمے میں مدد فراہم کی۔ پاکستان قبائلی قوانین کے تحت ان پر مقدمے اور اس کے نتیجے میں انہیں ملنے والی تینتیس برس کی سزا نے امریکا کے منتخب نمائندوں کو اس قدر آگ بگولا کیا کہ انہوں نے پاکستان کی امداد میں کٹوتی کی تجویز پیش کردی۔

شاید ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے کیے جانے والے اس فیصلے میں وقت کا اس سے بدتر انتخاب ممکن نہ تھا۔

پچھلے چند ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات نے پاک امریکا تعلقات کو اس کھائی میں پہنچا دیا ہے جہاں سے ان کے گئے دنوں کے اتحادی ہونے کا عمل اب مدّ مقابل قوتوں میں بدلنے جیسے خطرناک نتائج تک پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ پرپیچ راستوں سے بھرے پاک امریکی تعلقات کی دہائیوں میں کئی سنگلاخ مقامات آئے ہوں گے مگر اس سے برا وقت شاید کبھی نہیں آیا۔

اگرچہ ان تعلقات میں تناؤ کی کئی وجوہات رہی ہیں لیکن اس صورتِ حال کا بہت سا حصّہ اس انداز کا پیدا کردہ ہے جس سے دونوں ممالک کی قیادت نے ان اہم باہمی تعلقات کو پروان چڑھایا۔ ایک طرف ایک عالمی طاقت ہونے کا غرور اور دوسری جانب منزل کی نشاندہی کا فقدان اور افراتفری کا ہجوم۔

شکاگو میں نیٹو کی میٹنگ کے دوران یہ پہلو اس قدر عیاں تھا کہ امریکی صدر بارک اوبامہ کا صدر زرداری سے سرد روّیہ اور پاکستان کا ان ملکوں کی فہرست سے خارج ہونا، جن کا انہوں نے افغانستان میں مدد پر شکریہ ادا کیا، طاقت کے گھمنڈ کا  واضع اظہار ہے۔

آخری لمحوں میں آنے والے دعوت نامے نے ہوسکتا ہے پاکستان کو نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں افغانستان کے آخری معرکے پر بحس کرنے کے لیئے ایک کرسی فراہم کردی ہو، لیکن اکسٹھ قوموں اور تنظیموں پر مشتمل اس مجمعے میں پاکستان کے سر  پر مسلسل نیٹو رسد کھولنے اور ایسے ہی حل طلب مسائل کی تلوار لٹکتی رہی۔

پاکستان اور امریکی صدور کے درمیان افتتاحی اجلاس کے دوران مصافحہ اور خیر سگال کے جذبات کا اظہار وہ واحد رابطہ تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان ہوسکا۔

صدر اوبامہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ، 'ہم نے اجلاس کی طرف جاتے ہوئے بہت مختصر سی بات کی'۔

ایک فیصلہ کن کانفرنس میں کسی بھی پاکستانی رہنما ہر برہمی کا اس قدر برملا اظہار اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ لگتا تھا کہ یہ گویا اسلام آباد اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات پر دباؤ بڑھانے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔

طاقت کے اس بے جا استعمال نے دونوں ممالک کے درمیان ان بے ثمر تعلقات میں ایک نئی روح پھونکنے کی کسی بھی کوشش کو دشوار تر کردیا ہے۔

اوبامہ انتظامیہ نے کھلے عام تزلیل کو اپنی پالیسی بنا لیا ہے خاص طور پر پاکستان کے سلسلے میں بھول چکی ہے کہ اس کے خلاف ردّعمل شدید ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے امریکی مخالف جذبات کی وجوہات میں یہ رویہ اہم کردار ادا کررہا ہے۔

تاہم اس حقارت آمیز صورتِ حال کی ذمّہ داری پاکستانی حکومت پر بھی برابر عائد ہوتی ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا صدر پاکستانی کو شکاگو تین دن کے نوٹس پر جانا چاہیے تھا جب کہ انہیں رسد کی بحالی جیسے حل طلب مسائل کا سامنا تھا۔

گو پاکستانی حکام کی خوشی دیدنی تھی کہ انہیں اجلاس میں غیر مشروط شرکت کی دعوت دی گئی مگر نتائج بےسود ہی رہے۔

ایک توقع یہ کی جارہی تھی کہ نیٹو رسد کے اگلے معاہدے سے پہلے پاکستان کم از کم کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے سامان کی رسد پر سے بندش تو ہٹا ہی دے گا۔ یا تو پاکستانی حکام کو واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی سرد مہری کی وجہ سے امریکی حکومت کے معاندانہ رویے کا احساس تک نہیں تھا اور یا وہ اس دعوت نامے کے لئے اتنے بےچین ہوگئے تھے کہ انہیں اور کچھ دکھائی میں دیا۔

اندازے کی اس بڑی غلطی میں صدر اوبامہ کی سردمہری نے صدر زرداری کو ایک دھچکہ دے ڈالا۔ نیٹو اجلاس میں شرکت کے لیئے جانے سے پہلے انہیں یقیناً اس رویئے کی توقع نہیں تھی۔

پھر پاکستانی سرکاری حکام کے پاس شکاگو آنے سے پہلے کوئی واضع حکمتِ عملی  بھی نہیں تھی۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن سے ماقات کے دوران صدر زرداری کی گفتگو میں جوشِ خطابت تو بہت نظر آیا لیکن کسی حقیقی سمت کے تعین کا ابہام واضع تھا۔ ایک امریکی سرکاری اہلکار کے مطابق پاکستانی وفد اس سلسلے میں مجموعی طور پر  مستحکم تجاویز پیش کرنے میں ناکام رہا اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے کے سلسلے میں ابہام کا شکار نظر آیا۔

ہوسکتا ہے کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہ ہو لیکن یہ اندازہ کرنا ممکن ہے کہ کسی حد تک ایسا ہی ہوا ہو۔ پاک امریکی تعلقات کو ایک نئی مشکل دینے کے ایک نئے ضابطے کی پارلیمانی منظوری کو اب کم و بیش چھ ہفتے ہونے کو ہیں مگر ابھی تک کسی حقیقی حکمتِ عملی کی طرف قدم اٹھانے کے اثار نہیں دکھائی دے رہے۔

امریکہ کے ساتھ بات چیت میں بڑی رکاوٹ نیٹو رسد کی راہداری پر وصول ہونے والی رقوم کا تعین ہے۔ ہم ان تعلقات کی مجموعی اور کلیدی حکمتِ عملی پر نظر رکھنے کے بجائے ملنے والی رقم پر جھگڑتے نظر آتے ہیں اور 'کرائے پر خدمات فراہم کرنے والے ملک کی شہرت' حاصل کررہے ہیں۔

اس تناؤ کے باوجود دونوں ممالک کے کئی مفادات مشترکہ ہیں جن میں افغانستان میں گیارہ برس سے جاری جنگ کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ افغانستان کے کسی بھی پرامن حل میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے اور پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونے والی  دراڑیں نہ طرف علاقائی استحکام بلکہ خود پاکستان کیلیئے انتہائی خطرناک ہیں۔

شکاگو کانفرنس افغان جنگ کے خاتمے اور سنہ دو ہزار چودہ تک افغانستان میں امن کی ذمّہ داری مقامی سطح پر منتقل کرنے کیلیئے کی جانے والی حکمتِ عملی کی ایک عالمی قدم ہے۔ لیکن اس میں کئی معّمے ابھی تک حل طلب چھوڑ دیئے گئے ہیں جن میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایک پرامن حل کی تلاش بھی شامل ہے۔ یہاں تک کہ علاقائی سطح پر ایک غیر جانبدار اور خود مختار افغان ریاست کے قیام کو یقینی بنانے کا ذکر تک نہیں آیا۔

افغانستان کے مسئلے کے پرامن اور علاقائی سطح پر مستحکم حل کیلیئے پاک امریکی تعلقات کی بحالی ایک کلیدی حثیت کی حامل ہے۔ ان تعلقات میں بڑھنے والا تناؤ صرف انتہا پسندی میں اضافے کا موجب ہوگا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 9 جولائی 2025
کارٹون : 8 جولائی 2025