وہ جنہیں بھلادیا

ملک کے منظر نامے پر کھیلے جانے سیاست کے کھیل میں شریک شخصیات کی بڑی خبروں اور ان کی بڑی بڑی سرخیوں میں بعض اوقات حقیقی خبر، غلطی سے جگہ پانے سے رہ جاتی ہے۔
ایسی ہی ایک خبر رواں سال سیلاب کے اُن پچاس لاکھ بے گھر اور بے سہارا متاثرین کی بھی ہے، جن کی ابتر صورتِ حال حالیہ عرصے میں، اس اخبار میں تواتر سے شائع ہوتی رہی ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق رواں سال سیلاب سے چھ لاکھ مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔
اس حوالے سے سندھ بدترین متاثرہ صوبہ ہے، جہاں اب تک ایک لاکھ بیالس ہزار سے زائد متاثرین اب تک حکومت کے زیرِ انتظامات ریلیف کیمپوں میں مکین ہیں۔
ملک میں لاکھوں سیلاب متارین ایسے ہیں جو اب تک این جی اوز کے فراہم کردہ خیموں میں شب و روز بسر کررہے ہیں یا اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے پر جھونپڑیاں ڈال کر کیمپوں سے چلے گئے یا پھر سڑکوں کے کنارے بے یارومددگار پڑے ہیں۔
حکومت کی طرف سے بحالی کے لیے امداد کی آس لگائے متعدد متاثرین نے ناامیدی پر قرض لے کے اپنے وسائل سے اپنی چھت ڈالنا شروع کردی ہے۔
قرض لے کر گھروں کو تعمیر کرنے والے سیلاب متاثرین اس عمل سے مزید پریشانی کا شکار ہوں گے۔ سب کچھ لٹاچکے، اب اوپر سے قرض کا بوجھ بھی اُن کے سر پر ہوگا۔
وہ لوگ جن کا انحصار زمین پر تھا، وہ اب تک مکمل طور پر این جی اوز کی طرف سے تقسیم کیے جانے والے امدادی سامان کے رحم و کرم پر ہیں۔
اس وقت بھی بہت بڑا علاقہ زیرِ آب ہے اور حکومت کی طرف سے پانی کی نکاسی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، یا اگر کچھ کیا گیا تو وہ نہایت ناکافی تھا۔
ضلع جیکب آباد چاول کی پیداوار کے حوالے سے سندھ کا سب سے اہم ضلع ہے۔ سندھ بھر میں سیلاب کا بدترین متاثرہ ضلع بھی یہی ہے۔
یہاں اب بھی سیلابی پانی کھڑا ہے، جس کی عدم نکاسی سے نہ صرف لوگوں کی زندگیوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں بلکہ اس سے چاول کی اگلی فصل کی بوائی بھی شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اگرچہ اس وقت سیلاب متاثرین کے لیے فوری نوعیت کے بعض اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جیسا کہ یقینی امدادی معاوضہ، روز مرّہ کی بنیادی ضروریات اور سردیوں سے بچاؤ کے لیے اشیا کی فوری فراہمی وغیرہ۔
ساتھ ہی سیلاب، جسے اب قدرتی آفت کہا جارہا ہے، اس کے آنے میں تسلسل کے سبب حکومت کو چاہیے کہ وہ خطرات کو کم سے کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں پر منصوبہ بندی کرے تاکہ نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔
بعض ماہرینِ آب کا خیال ہے کہ محکمہ آب پاشی کے کے انفرا اسٹرکچر کو نئی سوچ کے مطابق تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، تو پھر اگر ایسا ہے تو ہمیں مشکل فیصلے لینے پڑیں گے۔ اب وقتی طور پر اقدامات کا وقت گذرچکا، یہ ناقبلِ قبول ہیں۔
اس صورتِ حال نے جس انسانی المیے کو جنم دیا ہے شاید اس سے بچا بھی جاسکتا تھا۔ تین سال سے لگاتار آنے والے سیلابوں کے بعد اب ممکن ہے کہ ایسا ہوا تو یہ خود ڈونرز کے لیے بھی درد سری کا باعث بن سکتا ہے۔
جہاں تک حکومت کی بات ہے تو خود اس کی مالی حالت حیرت انگیز حد تک مشکلات سے دوچار ہے۔
عام طورسیلاب ترقی کی رفتار کم کرنے والی تباہی ہے، جسے میڈیا ہو یا عوام، اُن کی قلیل المدت توجہ سے حل نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے حکومت کو اہم اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔
میڈیا پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان لاکھوں باشندوں کو درپیش مشکلات کو نہ تو نظروں سے اوجھل ہونے دے اور نہ ذہنوں سے بھلانے دے۔
صرف امید کی جاسکتی ہے کہ اس مسئلے کو جاممع طور پر حل کرلیا جائے۔











لائیو ٹی وی