فائل فوٹو --.


is blog ko sunne ke liye play ka button click karen | اس مضمون کو سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/75964197" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


اسلام آباد دھرنے کے اختتام نے کچھ اور واضح کر دیا ہے کہ جمہوری راستہ ہی ہمارا انتخاب ہے-

یعنی ہمیں اس حقیقت کا اور واضح ادراک ہوا ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ شمولیت کی دنیا ہے، نہ کہ چند چنے ہوئے لوگوں کی دنیا، کہ اس کے معاملات دلیل سے طے ہوتے ہیں نہ کہ دھونس سے، یعنی یہاں فیصلے رائے سے ہوتے ہیں نہ کہ حکم سے۔

ظاہر ہے فرقہ وارانہ تشدّد اور جارحانہ رویے ابھی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں لیکن یہ ان کی دنیا نہیں- وہ ہمیں امن اور خوشحالی کے انسانی سفر میں شامل ہونے سے کچھ دیر کے لئے روک سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں- جن کی وہ سنتے ہیں وہ انھیں سمجھائیں کہ وہ صرف چند نہتے افراد کو مار سکتے ہیں لیکن بنی نوع انسان کا صفایا نہیں کر سکتے- بندوق خوف زدہ کرتی اور جان تو لیتی ہے لیکن یہ کبھی جیت کا راستہ نہیں بنتی- اس کا مصرف صرف دفاع کے لئے ہی صحیح ہے-

لیکن اب یہ پوچھنے کا وقت آگیا ہے کہ آخراس دھرنے جیسی مزاحیہ اور مہمل کوششیں کرنا کیوں ضروری ہے؟ ہم اپنے وقت کی حقیقتوں کو کیوں تسلیم نہیں کر سکتے- کیوں ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے اچھے برے کھیل جمہوری حقائق کے دائرے میں رہ کرکھیلنا سیکھیں؟

معاملہ فہمی کا تقاضہ ہے کہ اسلام آباد میں اپنے مقاصد سے دستبردار ہونے والے مفادات پر سخت تنقید نہ کی جاۓ، لیکن دوسری طرف دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ بھی تاریخ عالم کی سیدھی سمت سے آ ملیں- اگر وہ منتخب حکومتوں میں اپنا دخل مانگنے کی بجائے ان کے ہر صحیح قدم کی تائید میں چٹان کی طرح قائم ہو جانے کا فیصلہ کر لیں تو قوم اپنے کتنے ہی مسائل پر حاوی ہو سکتی ہے-

آج ہر پیشے اور ہر مالی حیثیت والے عوام کی امنگ ہے کہ ان کی آواز سنی جائے اور ان کی زندگی پر اثرانداز ہونے والے فیصلوں میں انھیں شامل کیا جائے- ہم لوگوں میں عام اور خاص کے امتیازات قائم نہیں کر سکتے- کوئی فرد نہ تو معمولی ہے نہ غیر معمولی- فقط صلاحیت ہی فیصلہ کن اصول ہے- لیکن صلاحیت کوصرف تسلیم شدہ معیاروں سے طے کرنا لازمی ہے-

صلاحیت کے ذاتی اندازے مجھے یا آپ کو خاص شخصیت نہیں بنا دیتے- کسی شخص کوکوئی فیصلہ ماننے کے لئے آمادہ کرنے کا واحد مہذب اصول یہ ہے کہ اسے قائل کیا جائے- آپ اپنی خوبیوں پہ جتنا چاہیں اترائیں لیکن پاس بیٹھا شخص تبھی آپ کی تعریف کرے گا جب آپ کی خوبیاں تسلیم کرے گا- آپ کی خود ستائ سے کچھ طے نہیں ہوتا، جبکہ جبر کی طاقت اسے آپ سے اور دور کر دیتی ہے- برابری کی اسی پابندی، اسی مجبوری کو جمہوریت کہتے ہیں

برابری کی اس مجبوری پر کوئی جرنیل یا کوئی افسر اتنا ہی برہم ہو سکتا ہے جتنا کوئی دانشور- لیکن آج کی دنیا میں اس اصول مساوات سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں- سواۓ اس کے کہ لوگوں کو کسی وھم کے جادو سے بے مغز کردو، انہیں اندھے جذبات کا نشہ لگا دو، برابری کی امنگ ان کے دلوں سے نوچ ڈالو، تاکہ وہ رضاکارانہ طور پر خود سے دستبردار ہو جاییں- لیکن اس کاوش کی کامیابی کا امکان کم کم ہے-

گرچہ قادری دستے کے لوگوں میں اس کیفیت کے آثار نمایاں تھے اور ہم نے انھیں علامہ قادری کے لمحہ لمحہ بدلتے موقف اور مطالبات پر برابر سرشار پایا، جاتے وقت ان لوگوں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ معاہدہ کس کے ساتھ طے پایا، حکومت ہٹی کہ نہیں، تاہم یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا کی ملائم سی تنقید، مہذب سا تجزیہ بہت سے مسحور لوگوں کو جگا سکتا ہے- سب جانتے ہیں کہ میڈیا پر اثر انداز ہونا بھی ممکن ہے لیکن پورے مقاصد حاصل کرنے کے لیے گلوبل میڈیا کی اس دنیا میں اثر بھی گلوبل سطح کا چاہیے- اورایسی عالمی صلاحیت کسی میں نہیں، واحد سپر پاور میں بھی نہیں-

اس صورت حال میں آمر اور قاہر کا کام مشکل ہوتا جا رہا ہے، اور آنے والے وقتوں میں میرٹ ہی کے فتح مند ہونے کے امکان کھل رہے ہیں- شاطر اور چکرباز لوگ دوسروں کا حصہ اڑا لے جانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن ایسا تب تک ہی ممکن ہے جب تک اپنا حصہ گنوانے والے چپ رہیں- اگر آپ موجود ہیں اور شاطر کے ارادوں سے باخبر ہیں تو آپ لوگوں کو لٹنے سے پہلے خبردار کر سکتے ہیں ، جس کا انحصار پھر آپ کی صلاحیت پر ہے-

لوگوں کو اپنی راہ پر لانے کے لئے راغب و قائل کرنا ہی وہ صلاحیت ہے جو اپنی صداقت منوانے کے لئے انبیاء کو بھی استعمال کرنا پڑی- یہ آزادی رایے کا وہ حق ہے جو حق کے محافظ اور لٹیرے شاطر کو برابر حاصل ہے جب تک آپ شاطر کو بے نقاب کر کے قانون کے سامنے نہیں لاتے، صرف الزام لگانے سےآپ کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں کیوں کہ سچائی ثبوت کے بغیر سچائی نہیں، صرف رائے ہے-

ہمیں اپنی طرزفکر پر نظر ثانی کرنی چاہیے- ہم ایک ایسی صنعتی جمہوری دنیا میں رہتے ہیں جس کا دائرہ پھیل رہا ہے، جس میں معیشت کی طاقت جوھری ہتھیاروں سے کہیں زیادہ ہے- آج ہم جس وحشت کے ساتھ خود سے جنگ کر رہے ہیں، ہمیں اپنی تباہی کے لئے کسی ایٹمی حملے کی ضرورت  نہیں- ہمارے لئے اچّھا ہے کہ دنیا کے ساتھ جینے کے لئے جمہوریت اور امن کو اپنی ہی دولت ماں کر اپنا لیں-

ہمارا سب سے بڑا اور سب سے برا المیہ لاقانونیت ہے- فی الوقت صرف ایک فریق ہے جو قانون کو شکست دے رہا ہے یعنی اسلام کو ڈھال بنانے والے مجرم- کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارے جرنیل اور جج اپنی منتخب جمہوری حکومتوں کے ساتھ ایک ہو کر قانون سب کے لئے ایک سا کر دیں؟ یعنی ان کے لئے بھی جو قانون کے ہاتھ سے بچنے کے لئے اسلام کو ڈھال بنا لیتے ہیں- جہاں تک اچھے برے نمائندے چننے کا تعلق ہے، یہ حق اور کام عوام کا ہے، وہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے-

دانشور اور میڈیا ایک دوسرے سے اور عوام سے سیکھیں گے اور ایک دوسرے کو سکھائیں گے- ایک سہانے خواب جیسی خواہش ہر سنجیدہ محب وطن کے دل میں ہے کہ ہمارے جج اور جرنیل دانش و انکسار کی علامتیں بن کر ابھریں- اندھیری سرنگ کے پرلے سرے پر دھندلی سی روشنی لرز رہی ہے - جانے یہ سچ ہے یا سراب -- آئیے چل کر دیکھیں-


mubarik-80

  پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن  میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.

تبصرے (1) بند ہیں

Salman Ahmed Jan 22, 2013 03:46pm
Excellent article. Keep it up. Masses definitely will learn. Let us hope our establishment also learn so far it looks like they are stubborn on their stand not to transfer power to the people perhaps they intend to repeat history of East Pakistan.