کراچی اور کھانے
کھانا ہمیشہ سے کراچی والوں کی واحد تفریح رہی ہے۔ پہلے انواع اقسام کے چٹ پٹے کھانے کھائے جاتے تھے اب گولیاں کھاتے ہیں۔ ویسے کچھ افراد گولیاں دینے میں بھی ماہر ہیں لیکن کھانے والوں کی تعداد بہرحال زیادہ ہے۔
ہڑتال کا سماں ہو، شہر میں ہو کا عالم ہو، سڑکوں پر سناٹا ہو اور فائرنگ کی آواز آپکو گھر میں محصور ہونے پر مجبور کررہی ہو لیکن شام ہوتے ہی کراچی میں کھانے کے اڈے ویسے ہی آباد ہوجاتے ہیں۔ کراچی والے ہر غم بھلا کر ایسے مرغوب کھانے کھانے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
لاہوری ویسے ہی کھانے کیلئے مشہور ہیں اور پشاور کا پانی وہاں شہریوں کو خوش خوراکی پہ مجبور کئے رکھتا ہے لیکن کراچی والے آخر کھانے پینے میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتے ہیں، حالانکہ بقول شاعر:
"سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے"
لیکن کراچی والے ہیں کہ سینے کے جلن کی گولی منہ میں رکھ کر کھانے پینے پہنچ جاتے ہیں۔ کراچی میں ہر طبقے کے آدمی کو اس کی جیب کے حساب سے مزیدار کھانا مل جاتا ہے۔
غریب آدمی برنس روڈ پہ بھینس کے گوشت کے سیخ کباب اور فارمی مرغی کی چکن بریانی سے لطف اندوز ہوتا ہے جبکہ مڈل کلاسیئے بوٹ بیسن جاکر نہاری سے لیکر چائینیز تک اور برگر سے لیکر بروسٹ تک ہر طرح کے بدمزہ کھانوں میں فیشن کا مزہ ڈھونڈ سکتے ہیں. جبکہ امراء کا طبقہ مخصوص ریسٹورنٹس اور فائیو اسٹار ہوٹلز جاتا ہے جہاں کھانوں میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ پھیکے اور انتہائی مہنگے ہوتے ہیں۔
ویسے تو آپ نے کئی طرح کے مظالم ہوتے دیکھے ہونگے (نہیں دیکھے تو اس میں افسوس کی کوئی بات نہیں ہے) کھانے کیساتھ ظلم تو کراچی والے شادیوں کے موقع پر کرتے ہیں۔
خدا گواہ ہے کئی مرتبہ ہم نے ایک ایک آدمی کے سامنے دس دس پلیٹوں اور کولڈ ڈرنک کے انبار دیکھے ہیں اور کوئی بھی پلیٹ کم سے کم اتنی بھری ہوئی ہوتی ہے کہ دور سے دیکھنے میں چھوٹے چھوٹے پہاڑ سموئے معلوم پڑتی ہے۔ ایک دن شادی کی تقریب میں ایک ایسے ہی صاحب سے جو اپنے سامنے کھانے کے پہاڑ سجائے بیٹھے تھے ہم نے پوچھا:
راقم: آپ یہ سارا کھانا اکیلے کھائیں گے؟
(صاحب نے مرغی کی ٹانگ بھنبھوڑتے ہوئے ہمیں ناراضگی سے دیکھا اور بولے) صاحب: میرے کھانے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نا دیکھنا بڑی جدوجہد سے جمع کیا ہے۔
راقم: میرا مطلب آپ کیساتھ شئیر کرنا نہیں میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا تھا اگر آپ اتنا کھانا کھانے میں کامیاب ہوگئے تو کیا آپکا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکاڈ میں آسکتا ہے؟
صاحب: میں کھانے کے دوران بات کرنا پسند نہیں کرتا لہذا آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔ (ایسے موقع پر ہمارے منہ سے بے ساختہ نکل گیا)
راقم: مال مفت دل بے رحم!
صاحب: (غصے میں آکر) مفتا نہیں توڑ رہا لفافہ دیا ہے لفافہ۔
اب وہ لفافہ خالی ہی پکڑادیا گیا ہو یا اس میں دوچار سو روپے ڈال دئیے گئے ہوں لفافہ دینے کے بعد لوگ کھانا کھانا اور اسے برباد کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اکثر دس دس افراد پر مشتمل خاندان لفافے میں پانچ سو روپے پکڑا کر پانچ ہزار کا کھانا کھا جاتا ہے۔
ہمارے بچپن کا واقعہ ہے والد صاحب ہمیں اپنے ایک دوست کی شادی میں لے گئے ولیمہ کا موقعہ تھا ضیاالحق صاحب نے کھانے پر پابندی لگائی ہوئی تھی لہذا صرف ناشتہ پیش کیا گیا۔
والد نے ہماری پلیٹ میں پیسٹری، پٹیز اور کریم رول وغیرہ ڈال کر ہمیں تھما دی۔ اچانک ایک ہاتھ بڑھا اور ہماری پٹیز لے اڑا، ہم نے مڑ کر اس ہاتھ کے مالک کو دیکھنا چاہا اور واپس پلٹ کر اپنی پلیٹ کیجانب دیکھا تو پیسٹری اور کریم رول بھی غائب ہوچکا تھا۔ ہم نے روہانسے ہو کر سامنے میز پہ رکھی کولڈ ڈرنک کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بھی غائب ہوچکی تھی۔
ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے عزیز کیساتھ پیش آیا جب انہوں نے اپنے ولیمے میں لوگوں کو کھانا کھلنے کی اطلاع دینی چاہی اور اس سے پہلے کے وہ لوگوں کو باقاعدہ دعوت دیتے مجمع انہیں روندتے ہوئے کھانے تک پہنچ گیا۔ اس حادثے میں ہمارے عزیز کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔
یہ بات تو ہوئی بد تہذیب اور بد تمیز لوگوں کی لیکن ہمیں یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ ہمارے محلے کے سب سے شریف شخص جو ایک اسکول ماسٹر تھے ایک شادی میں تشریف لے گئے اور کسی صورت کھانے تک رسائی حاصل نا ہونے پر آؤ دیکھا نا تاؤ آستین اونچی کرکے پلیٹ سنبھالی اور یاعلی کا نعرہ مار کر بریانی کی ڈش کے گرد لگے مجمع میں کود گئے!
صاحب کچھ بھی کہئیے، کراچی غریب پرور شہر ہے یہاں کوئی بھوکا نہیں رہ سکتا اگر آپ کی جیب میں صرف پچاس روپے بھی پڑے ہوں تو آپ پیٹ بھر کر دال چاول، بند کباب یا بریانی کا مزہ لوٹ سکتے ہیں اور اگر پچاس روپے بھی نا ہوں تو ایدھی، چھیپا اور سیلانی کے دسترخوان تو موجود ہیں۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی