انتخابات اور اختیار
جیسے جیسے ہم انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں، پاکستانی سیاست کلائی ڈو اسکوپ بنتی جارہی ہے: ذرا سا ٹیوب کو گھمایا، جھٹ سے آنکھوں کے سامنے نیا منظر۔
کلائی ڈو اسکوپ، دوربین کی مانند ایسی ٹیوب ہے کہ جس کے اندر رنگ برنگ کانچ کے چھوٹے ٹکڑے بھرے ہوتے ہیں۔ جب ٹیوب پر روشنی پڑے اور اسے ذرا سا گھمادو تو جھٹ سے اندر کا منظر تبدیل ہوجاتا ہے، تو سیاست کے منطر بھی بدل رہے ہیں۔
نئے اتحادی اور نئے اتحادوں کا معاملہ چل رہا ہے۔ کل کے ناقابلِ قبول راتوں رات وفاداریاں بدل کر، اُنہی کے منظورِ نظر بن رہے ہیں۔ سلسلہ کئی سمتوں سے جاری ہے۔ منظر بدستور بدل رہے ہیں۔
جیت کی خواہش میں وفاداریاں تبدیل ہورہی ہیں، جنہیں طشتری میں رکھ کر قائدین کو پیش کیا جارہا ہے اور وہ قبول بھی ہورہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ شیروانی اور کوٹ بدل بدل لوٹوں کا لوٹا مارچ جاری ہے۔
حال ہی میں ایک دوست نے گفتگو کے دوران انتخابات کے بروقت انعقاد پر شک و شبہ کا ظہار کیا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ وہ گھمبیر افواہیں جن میں فوج اور پیلپز پارٹی کو ملوث کیا جارہا ہے۔ میں نے اس سے معمولی رقم پر شرط لگائی کہ انتخابات بروقت ہوں گے اور مجھے اپنی جیت کا یقین ہے۔
جیت کے لیے میری امید ہے سیاست۔ تب جبکہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں لگ بھگ ایک ماہ کا وقت رہ گیا تھا تو ایم کیو ایم نے اقتدار سے اختلاف کی طرف چھلانگ لگادی۔ کیا یہ اس بات کا یقینی اشارہ نہیں کہ انتخابات ہونے والے ہیں؟
گذشتہ چند برسوں کے دوران ایم کیو ایم نے اپنی بقا کے کچھ خاص طریقے وضع کر لیے ہیں: الیکشن لڑو بطور مخالف جماعت تاکہ اقتدار کے دوران کی برائیوں کا چھلّہ چمٹا نہ رہے اور جہاں اسے یہ اندازہ ہوا کہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کی سب سے بڑی جماعت کون سی ہوسکتی ہے، فوراً اس کے ساتھ اچھی ڈیل کی کوششیں شروع کردیں۔
بہت پہلے، وہ پیپلز پارٹی اور سن اُنیّسو نوّے میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ہاتھوں اچھی طرح دُرگت بننے کے بعد، دونوں سے سخت خائف تھی۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ دونوں سے دوری اُس کی ضرورت ہے۔
تو یہاں ہم سب سب پھر سے ہیں: ایم کیو ایم کے تمام وزراء تو مستعفی ہوچکے مگر اُن کے گورنر سندھ اب بھی صاحبِ اقتدار ہیں۔ سچ ہے کہ رِند کے رِند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ فوج ہو یا وہ دونوں جماعتیں جو ان سے ڈیل تو کرتی رہیں مگروہ ان پر اعتبار نہیں کرتے ہیں۔
کراچی کی بنیاد پر قائم جماعت کو ماضی میں پشت پر کیے متعدد وار کے باعث بھروسا متاثر نہیں کرسکتا اور یہ بداعتمادی صرف سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان تک ہی محدود نہیں۔
قومی سطح پر ہونے والے رائے عامہ پر کے ایک بڑے سروے کے نتائج گذشتہ ماہ 'ہیرالڈ ' میں شائع ہوئے تھے۔ جس میں، ملک میں فرقہ واریت، مذہبی تفرقات، نسلی اور لسّانی تشدد کے پھیلاؤ کے لیے، کسی بھی دوسری جماعت کے مقابلے میں ایم کیو ایم کو سب سے بڑا ذمہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ اور بات کہ تمام تر خامیوں کے باوجود، ایم کیو ایم مکمل طور پر سیکولر جماعت ہے۔
سروے میں نہایت مفید اعداد و شمار بھی دیے گئے تھے: مثال کے طور پر پانچ سال تک ناقص و کمزور حکمرانی اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات کے باوجود پپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اب بھی ساتھ ساتھ کھڑی ہیں جب کہ ملک کو معیشت سے لے کر خارجہ پالیسی تک متعدد نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے قابلِ احترام عمران خان کا اس میں تیسرا نمبر آتا ہے۔ وہ ملک کو درپیش مسائل کا حل دینے کے بجائے مقبولیت کی بنیاد پر انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ خبر بھی شاید عمران خان کے لیے اچھی ہے کہ ان کے زیادہ تر حمایتی، جن کی تعداد کو اعداد کی صورت ہی پڑھا جاتا ہے، زیادہ تر پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں ان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ تاہم یہ دیکھنا ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کو انتخابات میں، نشستوں میں کیسے بدلتے ہیں۔
لیکن ہمارے ہاں گذشتہ عام انتخابات کے بعد کی صورتِ حال یہ رہی کہ شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں ووٹ کے دیے گئے سارے انڈے ایک ہی باسکٹ میں رکھے نظر آئے تھے۔
تو ایسے میں نظر یہی آتا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بھی مینڈیٹ منقسم ہوگا۔ جناب نواز شریف نشستوں کا اچھا خاصا حصہ جیت سکتے ہیں اور امکان یہی ہے کہ ان کے قریب تر ہوگی پاکستان پیپلز پارٹی۔
تاہم اگر نواز شریف اس کے بغیر چلنا چاہیں گے تو انہیں ساتھ ملانا ہوگا چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو۔ ساتھ ہی انہیں حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم یا پھر پی ٹی آئی کی طرف بھی بڑھنا ہوگا۔
گذشتہ ایک سال کے دوران اُن کے درمیان تلخی کا جو بہاؤ جاری رہا، وہ نواز شریف کے لیے کوئی ضروری انتخاب بھی نہیں تھا، تاہم دونوں چھوٹی جماعتیں اقتدار کی بھوکی ہیں اور امکان یہی ہے کہ اس کے لیے وہ ماضی کی تلخیوں کا کڑوا گھونٹ بھی پی جائیں گی۔
ویسے بھی پاکستانی سیاست اصولوں کا نام نہیں، وہ بھی اس صورت میں کہ جب کرسی پیش کی جارہی ہو۔
ویسے بھی کئی سالوں تک دیوار سے لگے رہنے والے عمران خان بھی اب اقتدار کی قیمت جان چکے ہیں۔ جیتنے والے گھوڑے ہی انہیں اس مقام پر لے جاسکتے ہیں، جہاں اُن کی تب نظریں لگی تھیں، جب وہ گذشتہ برس سونامی کی لہروں پر سوار تھے، اگر وہ والی ہوا رہی تو پھر یہ انہیں مخلوط حکومت میں شامل ہونے سے روک بھی سکتی ہے۔
ویسے پاکستان میں ایک ایسا حصہ تو ہے ہی جو ہوا کے رُخ پر اپنا رُخ بدل لیتا ہے، لہٰذا ایسے میں جیتنے والے کی بگھی میں سوار ہونے پر تیار، چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کی کوئی کمی نہ ہوگی، تاہم اس سے بلیک میلنگ کا امکان بڑھ جائے گا۔
ہندوستان میں بھی ایسی مثالیں سامنے ہیں کہ حکمراں کانگریس کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے چھوٹی چھوٹی اتحادی جماعتوں کے آگے ملحت آمیز انداز میں جھکنا پڑا۔
ہم عام طور پر دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان تلخی بڑھ رہی ہے اور یہ انتخاب قریب ہونے کا رجحان ہے اور اس بات کا اشارہ کہ دونوں اپنی اپنی صفوں میں لوٹوں کو اُن کا مقام دینے پر تیار ہوچکے۔
ایک طرف جیالے بھی ہیں کہ جو گذشتہ پانچ سالوں کے دوران اپنی جماعت کے مصالحانہ رویوں کے باعث مبہم سوچ لیے کھڑے ہیں۔ ویسے یہ اپنے اندر ایک چھوٹا سا معجزہ ہوگا تاہم جیسے ہی ان کی جماعت اپنے پانچ سال پورے کر لے گی ان کی قدروقیمت میں فوراً بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔
کچھ بھی ہو مگر لگتا یہی ہے کہ کوئی تنہا اقتدار سنبھالنے کے قابل نہیں ہوگا۔ زرداری کی سیاسی حکمتِ عملی یہ ہے کہ جیسے بھی ہو اقتدار ہاتھ میں رہے۔ اصل میں ہمارے ہاں 'قوت' ایک ایسی غلط اصطلاح بن چکی، جس کا شاید ہی کسی حکومت نے استعمال کیا ہو۔
یہ ہر اقتدار مرکز کے سامنے کے سامنے جھک جاتا ہے، اس وقت بھی جب ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
فوج ہو، عدلیہ، دہشت گرد، اپوزیشن، یا پھر میڈیا، زرداری مفاہمت کر لیتے ہیں جوابی پنچ نہیں مارتے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ وہ پُرانے طور طریقوں سے معاملہ نمٹالیتے ہیں۔ انہوں نے متعدد بار سنگین بحرانوں سے کامیابی سے نمٹا، یہ اور بات کہ ان میں سے زیادہ تر خود ان کے ہی پیدا کردہ تھے۔ جب بھی انہیں آگے دھکیلا جاتا ہے، عام طور پر دیکھا یہی گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
حکومتی ترجمان بڑے دھڑلے سے اعلانات کرتے پھر رہے ہیں کہ ان کی حکومت نے کامیابی سے مدتِ اقتدار کے پانچ سال مکمل کر لیے۔ اس میں بہت بڑا اور ذمہ دارانہ کردار نواز شریف کا ہے، جنہوں نے حکومت کو غیر مستحکم یا کمزور کرنے سے ہر ممکن اجتناب برتا۔
یہ سچ ہے کہ نواز شریف کو متعدد بار ایسا کرنے کے مواقع ملے مگر انہوں نے بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نظام کی قیمت پر چھوٹے چھوٹے مفادات حاصل کرنے کے اُن مواقعوں کو قطعی نظر انداز کردیا۔
گذشتہ پانچ سالوں کے دوران متعدد قارین یہ شکایات کرتے رہے ہیں کہ جمہوریت ملک کو کچھ نہ دے سکی ماسوائے صدمات کے، اور اگلے انتخابات میں بھی کچھ بدلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہی چہرے اور جماعتیں پھر پارلیمنٹ میں واپس آجائیں گی۔ میں ان سب باتوں اور خدشات سے متفق نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انتخابات کے لیے قواعد و ضوابط سخت ترین بنادیے گئے ہیں، نیز ان پر عدلیہ اور میڈیا کی بھی کڑی نظریں ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ان انتخابات میں نظام مضبوط تر ہوگا اور بہتر سیاستدان سامنے آسکیں گے۔
صورت چاہے کوئی بھی ہو مگر آمریت کے مقابلے میں ہم پھر بھی بہتر ہیں۔
مضمون نگار 'فیٹل فالٹ لائنز: پاکستان، اسلام اینڈ ویسٹ' کے مصنف ہیں۔ irfan.husain@gmail.com ترجمہ: مختار آزاد