الیکشن کا سٹہ
یہ کہنا کہ جیسی قوم ہوتی ہے اس پر اسی طرح کے حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں۔ بالکل بجا ہے۔ ہمارے حکمراں اپنے جن عظیم کارناموں کی بنیاد پر پوری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں عوام بھی اُن میں کسی سے کم نہیں، عام گلی ہو یا ائر پورٹ پر سیکیورٹی چیک، کسی پاکستانی کو دیکھ کر غیر ملکیوں کے اینٹینے فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ریڈ بلب جل اٹھتا ہے۔ اور دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔
اور اس کی وجوہات بھی ہیں، جب ہماری قوم کا سب سے بڑا ہیرو جس نے ہمیں ایٹمی قوت بنایا خود آکر ٹی وی اسکرین پر یہ کہے کہ ہاں میں نے ایٹم بم کی ٹیکنالوجی غیر قانونی طور پر ایسے ملکوں کو بیچی ہے جو اسکا غلط استمعال کر سکتے ہیں۔ یہاں ان کے کہنے کا مطلب ایٹم بم ہی تھا۔ شب برات پر چھوٹنے والے پٹاخے اور پھلجڑیاں نہیں تھا۔ وہ ایٹم بم جو لاکھوں انسانو ں کو چند لمحوں میں لقمہ اجل بنا سکتا ہے۔ سوچئے تو عوام کا کیا حال ہوگا اور اگر آٹھ دس لاکھ لوگ مر بھی جائیں گے تو کیا ہوا! ہمارا عقیدہ ہے زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لاکھوں لوگوں کی موت ان کے نصیب میں لکھی ہوگی۔
الیکشن کا زمانہ ہے۔ افواہوں اور سروے رپورٹس کا بازار گرم ہے۔ ہر رنگ کے سیاستدان نئے نئے رنگوں کے ساتھ عوام کے سامنے آرہے ہیں۔ حتیٰ کہ میڈیا کے تائب اور عدالتوں سے اشتہاری قرار دئیے جانے والے پرویز مشرف صاحب بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ ان کے پاس مرد امیدواروں میں سے تو کوئی تگڑا پہلوان نہیں لیکن انہوں نے نواز شریف کا مقابلہ کرنے کے لئے گاما پہلوان کی پوتی، بھولو کی بیٹی اور جھارا کی بیوی کو میاں نواز شریف کے مقابلے پر اتارا ہے۔ یہ بات اور مزے کی ہے کہ خاتون سائزہ بانو میاں نواز شریف کی زوجہ کلثوم نواز کی کزن بھی ہیں۔
دنگل تو سج گیا۔ پہلوان بھی اکھاڑے میں آگئے۔ لیکن باہر بیٹھے ہوئے سٹے بازوں نے مقابلہ شروع ہونے سے قبل ہی نتائج کا اعلان کر دیا ہے کہ سن 2013 کے الیکشن میں میاں نواز شریف ہی جیت رہے ہیں۔ بس جناب اتنا کافی ہے دیکھتے ہی دیکھتے سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد۔ جن میں شیخ وقاص اکرم، سید ظفر علی شاہ، عظیم شاہ وغیرہ شامل ہیں مسلم لیگ نون میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے واحد سپر اسٹار شاہد آفریدی بھی مستقبل کے وزیر اعظم کی آشیر واد لینے ان کے گھر پہنچ گئے۔
تو عوام کسی سے پیچھے کیوں رہیں۔ جب انہیں پتہ ہے کہ مسلم لیگ نون یہ الیکشن جیت رہی ہے تو وہ کسی اور پارٹی یا منشور یا نظرئیے کو ووٹ دے کر اسے ضائع کیوں کریں۔ اپنے علاقائی مسلم لیگی لیڈر سے تعلقات استوار کر کے اپنی وفاداریاں ان کی پارٹی کے سپرد کئے جانے کی مہم زور و شور سے شروع ہو چکی ہے۔ اب اگلے پانچ سال ان کے سارے جائز اور ناجائز کام اب مسلم لیگ نون نے ہی کرانے ہیں۔
لیکن کراچی کے عوام زیادہ چالاک ہیں، انہیں پتہ ہے کے مرکز میں کسی کی بھی حکومت آئے متحدہ قومی موومنٹ اس کا حصہ ضرور ہوگی۔ تو کراچی والوں کا ووٹ متحدہ کے لئے ہی ہوگا۔
برا ہو ان سیاسی پنڈتوں کا جو نواز شریف کے جیتنے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ وہ حضرات جو تحریک انصاف کے پچھلے سال کے لاہور اور کراچی کے عظیم الشان جلسوں کو دیکھ کر عمران خان سے وفاداری کا حلف لے بیٹھے تھے اب حسرت و یاس کی تصویریں بنے مسلم لیگ نون کو دیکھ رہے ہیں۔ کئیوں نے تو تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ کر 'سچے مسلم لیگی' کا عہد بھی لے لیا ہے۔
وفاق کی علامت اور پاکستان کے چاروں صوبوں کی سب سے بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کا ملکی اور غیر ملکی سرووں میں برا حشر ہے لہٰذا اب تو پیپلز پارٹی کا سایہ بھی اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سندھ جو پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں دراڑیں پڑنے لگی ہیں اور مسلم لیگ فنکشنل کے کئی امیدوار فتح کے لئے پر اُمید ہیں۔ اب وہ سیاسی کارکن اور ہمدرد جنہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے اس بار اپنے ماتھے پر مسلم لیگ فنکشنل کا تاج سجا لیا ہے۔
میڈیا بھٹے پر کام کرنے والی خاتون مزدور اور نابینا حافظ صاحب جو بسوں مین تھیلی بیچتے ہیں الیکشن لڑنے کی خبریں نشر کر رہا ہے لیکن عوام کبھی بھی ایسے لوگوں کو جن کی شکست یقینی ہے اپنا قیمتی ووٹ نہیں دیں گے۔ چاہے وہ کتنے ہی ایماندار اور انقلابی ایجنڈہ رکھتے ہوں۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے













لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں