• KHI: Clear 18°C
  • LHR: Sunny 12.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.6°C
  • KHI: Clear 18°C
  • LHR: Sunny 12.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.6°C

الیکشن کا سٹہ

شائع April 17, 2013

پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ، نواز شریف -- فائل تصویر
پاکستان مسلم لیگ نون کے سربراہ، نواز شریف -- فائل تصویر

یہ کہنا کہ جیسی قوم ہوتی ہے اس پر اسی طرح کے حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں۔ بالکل بجا ہے۔ ہمارے حکمراں اپنے جن عظیم کارناموں کی بنیاد پر پوری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں عوام بھی اُن میں کسی سے کم نہیں، عام گلی ہو یا ائر پورٹ پر سیکیورٹی چیک، کسی پاکستانی کو دیکھ کر غیر ملکیوں کے اینٹینے فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ریڈ بلب جل اٹھتا ہے۔ اور دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔

اور اس کی وجوہات بھی ہیں، جب ہماری قوم کا سب سے بڑا ہیرو جس نے ہمیں ایٹمی قوت بنایا خود آکر ٹی وی اسکرین پر یہ کہے کہ ہاں میں نے ایٹم بم کی ٹیکنالوجی غیر قانونی طور پر ایسے ملکوں کو بیچی ہے جو اسکا غلط استمعال کر سکتے ہیں۔ یہاں ان کے کہنے کا مطلب ایٹم بم ہی تھا۔ شب برات پر چھوٹنے والے پٹاخے اور پھلجڑیاں نہیں تھا۔ وہ ایٹم بم جو لاکھوں انسانو ں کو چند لمحوں میں لقمہ اجل بنا سکتا ہے۔ سوچئے تو عوام کا کیا حال ہوگا اور اگر آٹھ دس لاکھ لوگ مر بھی جائیں گے تو کیا ہوا! ہمارا عقیدہ ہے زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لاکھوں لوگوں کی موت ان کے نصیب میں لکھی ہوگی۔

الیکشن کا زمانہ ہے۔ افواہوں اور سروے رپورٹس کا بازار گرم ہے۔ ہر رنگ کے سیاستدان نئے نئے رنگوں کے ساتھ عوام کے سامنے آرہے ہیں۔ حتیٰ کہ میڈیا کے تائب اور عدالتوں سے اشتہاری قرار دئیے جانے والے پرویز مشرف صاحب بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ ان کے پاس مرد امیدواروں میں سے تو کوئی تگڑا پہلوان نہیں لیکن انہوں نے نواز شریف کا مقابلہ کرنے کے لئے گاما پہلوان کی پوتی، بھولو کی بیٹی اور جھارا کی بیوی کو میاں نواز شریف کے مقابلے پر اتارا ہے۔ یہ بات اور مزے کی ہے کہ خاتون سائزہ بانو میاں نواز شریف کی زوجہ کلثوم نواز کی کزن بھی ہیں۔

دنگل تو سج گیا۔ پہلوان بھی اکھاڑے میں آگئے۔ لیکن باہر بیٹھے ہوئے سٹے بازوں نے مقابلہ شروع ہونے سے قبل ہی نتائج کا اعلان کر دیا ہے کہ سن 2013 کے الیکشن میں میاں نواز شریف ہی جیت رہے ہیں۔ بس جناب اتنا کافی ہے دیکھتے ہی دیکھتے سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد۔ جن میں شیخ وقاص اکرم، سید ظفر علی شاہ، عظیم شاہ وغیرہ شامل ہیں مسلم لیگ نون میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے واحد سپر اسٹار شاہد آفریدی بھی مستقبل کے وزیر اعظم کی آشیر واد لینے ان کے گھر پہنچ گئے۔

تو عوام کسی سے پیچھے کیوں رہیں۔ جب انہیں پتہ ہے کہ مسلم لیگ نون یہ الیکشن جیت رہی ہے تو وہ کسی اور پارٹی یا منشور یا نظرئیے کو ووٹ دے کر اسے ضائع کیوں کریں۔ اپنے علاقائی مسلم لیگی لیڈر سے تعلقات استوار کر کے اپنی وفاداریاں ان کی پارٹی کے سپرد کئے جانے کی مہم زور و شور سے شروع ہو چکی ہے۔ اب اگلے پانچ سال ان کے سارے جائز اور ناجائز کام اب مسلم لیگ نون نے ہی کرانے ہیں۔

لیکن کراچی کے عوام زیادہ چالاک ہیں، انہیں پتہ ہے کے مرکز میں کسی کی بھی حکومت آئے متحدہ قومی موومنٹ اس کا حصہ ضرور ہوگی۔ تو کراچی والوں کا ووٹ متحدہ کے لئے ہی ہوگا۔

برا ہو ان سیاسی پنڈتوں کا جو نواز شریف کے جیتنے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ وہ حضرات جو تحریک انصاف کے پچھلے سال کے لاہور اور کراچی کے عظیم الشان جلسوں کو دیکھ کر عمران خان سے وفاداری کا حلف لے بیٹھے تھے اب حسرت و یاس کی تصویریں بنے مسلم لیگ نون کو دیکھ رہے ہیں۔ کئیوں نے تو تحریک انصاف کو خیر آباد کہہ کر 'سچے مسلم لیگی' کا عہد بھی لے لیا ہے۔

وفاق کی علامت اور پاکستان کے چاروں صوبوں کی سب سے بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کا ملکی اور غیر ملکی سرووں میں برا حشر ہے لہٰذا اب تو پیپلز پارٹی کا سایہ بھی اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سندھ جو پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں دراڑیں پڑنے لگی ہیں اور مسلم لیگ فنکشنل کے کئی امیدوار فتح کے لئے پر اُمید ہیں۔ اب وہ سیاسی کارکن اور ہمدرد جنہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے اس بار اپنے ماتھے پر مسلم لیگ فنکشنل کا تاج سجا لیا ہے۔

میڈیا بھٹے پر کام کرنے والی خاتون مزدور اور نابینا حافظ صاحب جو بسوں مین تھیلی بیچتے ہیں الیکشن لڑنے کی خبریں نشر کر رہا ہے لیکن عوام کبھی بھی ایسے لوگوں کو جن کی شکست یقینی ہے اپنا قیمتی ووٹ نہیں دیں گے۔ چاہے وہ کتنے ہی ایماندار اور انقلابی ایجنڈہ رکھتے ہوں۔


Khurram-abbas-blogs-80 خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے

خرم عباس

لکھاری نے پاکستان کے اسٹریٹجک معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد فاضل عارف Apr 17, 2013 11:11am
حقیقت میں ہم سب لوگ لکیر کے فقیر بن چُکے ہیں اور عقل اور شعور سے کام لینا چھوڑ دیا ہوا ہے ۔اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارے زیادہ تر سیاستدان عوام کو صرف سبز باغ دکھاتے ہیں اور ووٹ حاصل کر لیتے ہیں لیکن الیکشن جیتنے کے بعد عوام سے کئے گئے وعدے بھول جاتے ہیں لیکن اس میں قصور عوام کا اپنا بھی ہے جو پہلے سے آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو ووٹ دے دیتے ہیں لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام جب ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو اُن کا ووٹ پہلے سے ہی کاسٹ ہو چکا ہوتا ہے ۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن آزادانہ اور مُنصفانہ الیکشن کروانے کا ڈھول پیٹ رہا ہے تو ایسے وقت میں بھی کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک سیاسی پارٹی کے دفتر سے شناختی کارڈ کی بھری ہوئی بوریاں برآمد ہوئی ہیں تو ان حالات میں منصفانہ انتخابات کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ اور اس تمام کھیل میں شور بھی چور ہی مچا رہے ہیں۔دوسری طرف سندھ میں ایک سیاسی گورنر اور صرف دو اتحادی پارٹیوں کی مشاورت سے بننے والی نگراں حکومت کے ہوتے ہوئے آزاد اور منصفانہ انتخابات کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اگر الیکشن ہو بھی جائیں تو کون گارنٹی دے سکتا ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیاں ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیں گی؟ اس لئے ایسے حالات میں جب کہ ہر طرف خون کی حولی کھیلی جا رہی ہے اور کسی کی جان بھی محفوظ نہیں تو الیکشن کیسے ہونگے اگر ہو بھی گئے تو مزید خون خرابہ ہی ہوگا اور انتقال اقتدار ایک خواب سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 17 دسمبر 2025
کارٹون : 16 دسمبر 2025