صلح کے خطرات
کیا معتدل دہشتگرد نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ حال ہی میں ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر کے بارے میں بعض تجزیہ کاروں کا کچھ ایسا ہی خیال ہے -
حقیقتاً ، پاکستانی علاقے میں امریکی سی آئی اے کا حالیہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہدف، ولی الرحمٰن، بہت سے ہولناک عسکری حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا- اسکو ایک متعدل انسان اور ایسے شخص کے طور پر پیش کرنا جو امن مذاکرات چاہتا ہو، دہشتگردی کے شکار ہزاروں معصوموں کے ساتھ بھیانک مذاق ہے-
ولی الرحمٰن، پاکستان میں سب سے زیادہ ڈھونڈے جانے والے دہشتگردوں کی فہرست میں ایسے ہی، بنا کسی وجہ کے، موجود نہیں تھا- یو ایس نے اس کے سر پر پانچ ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا- تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کے سردار اعلیٰ کی حیثیت سے اس کا کردار، 2009 میں روالپنڈی میں جی ایچ کیو کے خونی محاصرے کے دوران روشنی میں آیا- بیچ میں پکڑے جانے والے پیغامات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حملہ آور مستقل وائرلیس کے ذریعہ والی الرحمٰن سے ہدایات وصول کر رہے تھے-
پاکستانی حدود میں سی آئی اے کی ڈرون مہم کی قانونی حیثیت پر بحث ایک طرف، لیکن یہ ایک غلط دلیل ہے کہ ولی الرحمٰن پر قاتلانہ حملہ طالبان سے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے تھا- اس طرح کے مباحثے صرف طالبان کے حامیوں کو ان کے عسکری مقاصد کی تشہیر میں مدد دیں گے- طالبان اور آنے والی حکومت کے درمیان، خود ساختہ ثآلِث، مولانا سمیع الحق کا یہ مطالبہ کہ پاکستان کو ولی الرحمٰن کے قتل پر معافی مانگنی چاہیے، چونکا دینے والا ہے-
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ طالبان، اپنے نائب کمانڈر کے قتل کو جواز بنا کر، نام نہاد امن مذاکرات سے الگ ہو گۓ ہیں- صاف ظاہر ہے کہ ابتدا ہی سے طالبان امن کے قیام کے لئے سنجیدہ نہیں تھے- لیکن کچھ سیاسی جماعتوں نے اس چال کو سنجیدگی سے لے لیا-
پی ایم ایل-این اور تحریک انصاف نے امن مذاکرات کی حمایت کو اپنی انتخابی مہم کا حصّہ بنایا- اپنی جماعت کے نۓ منتخبہ ارکان قومی اسمبلی سے اپنی پہلی تقریر میں نواز شریف نے بار بار اس بات پر اصرار کیا کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں- "ہمیں طالبان سے بات کیوں نہیں کرنی چاہیے؟" انہوں نے یہ سوال اپنی جماعت کے قانون سازوں سے سوال کیا اور پھر خود ہی اسکا مثبت جواب بھی دیا-
گزشتہ حکومت پر طالبان سے امن بات چیت کو سنجیدگی سے نہ لینے کا الزام لگاتے وقت ہمارے نۓ رہنما نے پاکستان میں طالبان کی سفاکانہ کاروائیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا- ان ہزاروں فوجیوں کی کوئی تعظیم نہیں کی گئی جنہوں نے قبائلی علاقوں کی حفاظت اور عسکریت پسندوں سے جنگ میں اپنی جانیں گنوا دیں-
شاید طالبان کو برا نہ لگ جاۓ اس لئے نواز صاحب نے ملالہ یوسف زئی کا ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا جس کو انہوں نے اپنے رجعت پذیر نظریات کی مخالفت کرنے پر گولی ماری تھی- سوات کی یہ نوجوان لڑکی، اب بہادری کا بین الاقوامی نشان بن گئی ہے- لیکن شاید ہماری نئی حکمران جماعتوں کے لئے نہیں-
ایک بیان میں خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی حکومت کے نۓ وزیر اعلیٰ کا یہ اعلان کہ انکی جماعت کی "طالبان سے کوئی عداوت نہیں رہی" اتنی ہی دل سوز ہے-
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب طالبان نے کم ز کم چھ دہشت گرد حملے کچھ ہی دنوں کے دوران کیے- ان حملوں کی دو طاقتور جماعتوں، جو کہ اب مرکز، پنجاب اور خیبر پختوں خواہ کی مقتدر ہیں، کی طرف سے کوئی مذمت نہیں کی گئی-
ایسا متاسف انداز اور دہشتگردوں کے نخرے اٹھانا عسکریت پسندوں کو زیادہ پھیلنے کا موقع دے گا اور قوم کو تقسیم کرے گا- طالبان کو واضح اشارہ دے کر خیبر پختون خواہ بہت خطرناک مثال قائم کر رہا ہے- ایک لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے سستی دکھانے اور اپنا تحفظ نہ کرنے سے، عسکریت پسندوں کو دوبارہ افزائش اور اپنے ہارے ہوۓ علاقے واپس حاصل کرنے کی گنجائش ملے گی-
انکو سوات امن معاہدوں سے سبق سیکھنا چاہیے- 2008 میں صوبے میں اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی عوامی نیشنل پارٹی نے اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کی شرائط پر مذاکرات کئے اور ان کا نتیجہ تباہ کن نکلا-
امن معاہدے کے بعد آزاد ہونے والے کمانڈر نے سوات جا کر ان سیکڑوں لوگوں کا قتل شروع کر دیا جنہوں نے انتظامیہ اور سیاسی مخالفین کے ساتھ تعاون کیا تھا- 2009 میں ایک اورناکام امن ڈیل کے نتیجے میں ملٹری آپریشن ہوا- چناچہ یہ دلیل کہ مذاکرات کو موقع نہیں دیا گیا غلط ہے-
جو بات، سب سے زیادہ خطرناک ہے، وہ نئی حکومت اور فوج کے درمیان، طالبان سےامن مذاکرات کے حوالے سے بڑھتی ہوئی خلیج ہے- جنرل کیانی نے یہ بلکل واضح کر دیا ہے کہ جب تک عسکریت پسند تشدد کا راستہ نہیں چھوڑ دیتے اور ریاست کے قانون کو قبول نہیں کر لیتے، کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہونگے- سویلین قیادت کا رویہ اس احساس کو تقویت پنہچا رہا ہے کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کا تعلق صرف فوج سے ہے اور ان کا مذاکرات سے کوئی واسطہ نہیں- یہ حالات کا بہت خطرناک رخ ہے کہ جس کا براہ راست تعلق، ملک کی داخلی سلامتی سے ہے-
مذاکرات کی حامی جماعتوں کے درمیان ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مذاکرات میں کن باتوں پر غور غوض کیا جاۓ گا- طالبان کے مطالبوں کی فہرست میں، ان کے اپنے طریقے کی شریعت کا اطلاق اور ملک کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے نقشے میں تبدیلی شامل ہے- یہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کو یکسر مسترد کرتا ہے- کیا کوئی بھی ریاست ایسی شرائط منظور کرے گی؟
ایک بحث جو بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اگر امریکا، افغانستان میں طالبان سے عہدوپیمان کر سکتا ہے تو آخر پاکستان اپنے جنگجوں سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتا- یہ انتہائی نامعقول مماثلت ہے- ان دونوں باتوں کے تناظر میں ایک بہت بڑا فرق ہے- پاکستان میں کوئی بیرونی طاقت موجود نہیں، ٹی ٹی پی یہاں غیر ملکی فوج سے نہیں لڑ رہی-
عسکری تشدد کے لئے ایک اور عذر، یو ایس کی افغان جنگ میں پاکستان کی نام نہاد شمولیت ہے- عمران خان اور دوسری سیاسی جماتون کے لیڈروں کے مطابق، اس جنگ نے جہادیوں کے نظریات کو اور مضبوط کر دیا ہے- یہ شاید سب سے زیادہ ناقابل یقین دلیل ہے- بھلا پاکستان یو ایس کی جنگ میں کیسے شامل ہو سکتا ہے جب کہ متحدہ فوجیں افغانستان سے جا رہی ہیں- کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں ہونے والے نام نہاد جہاد کی حمایت کرے؟
مزید براں یہ کہ طالبان کوئی یک سنگی گروہ تو ہے نہیں- ایک درجن سے زائد طالبان اور عسکری دھڑے، اپنے الگ الگ مطالبوں اور ایجنڈوں کے ساتھ، خیبر پختون خواہ میں سرگرم ہیں- ان میں سے بہت سے جرائم پیشہ گروہ ہیں جو اغوا سے لے کر بینک ڈکیتی تک کے جرائم میں ملوث ہیں- اب ہم ان میں سے ہر ایک سے کیسے مذاکرات کریں گے؟ شاید حکومت کے پاس اسکا واضح جواب نہیں ہے-
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (1) بند ہیں