افغان طالبان، راتوں کے حکمران
تیس سالہ جہانزیب بتاتے ہیں کہ وہ مشرقی افغانستان میں اپنے آبائی گاؤں میں نہیں رہائش اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں رات ہوتے ہیں طالبان کی حکمرانی شروع ہو جاتی ہے۔
شدت پسندوں سے خوفزدہ ہو کر جہانزیب قریبی بڑے شہر جلال آباد بھاگ آئے، جہاں وہ اپنے اہل خانہ سے دور رہتے ہوئے آج کل ایک فیکٹری میں انتہائی کم اُجرت پر دن بھر تھیلوں میں آٹا بھرنے کی مشقت کرتے ہیں۔
انہوں نے آٹا ایک تھیلے میں بھرنے کے دوران اے ایف پی سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ان کے یہاں چلے آنے کی وجہ گاؤں میں لڑائی ہے۔
'وہاں ہر وقت لڑائی جاری رہتی ہے، گھروں، میدانوں غرض کہ ہر جگہ پر'۔
دوران گفتگو اپنے گاؤں کا ذکر کرتے ہوئے جہانزیب آبدیدہ ہو گئے اور بتایا وہ اپنے گھر کو بہت یاد کرتے ہیں۔
ان کا گاؤں پچار ننگر ہار صوبہ کے جنوب مشرقی شہر جلال آباد سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
ننگر ہار کے بائیس میں سے صرف چار یا پانچ اضلاع ہی محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔
مقامی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ باقی اضلاع یا تو طالبان کے مکمل کنٹرول میں یا ان کے زیر اثر ہیں۔
جہانزیب کا گاؤں پچار بھی ایک ایسے ہی ضلع میں ہے جہاں عدم استحکام بڑی تشویش کی بات ہے۔
جہانزیب کے مطابق ان کے گاؤں میں رات کے وقت طالبان کا راج ہوتا ہے۔
' وہ سرکاری سیکیورٹی پوسٹوں پر حملے کرتے ہیں، وہاں کوئی تحفظ نہیں۔ ان علاقوں میں سرکاری حکام اپنے دفاتر سے باہر نہیں نکل سکتے اور ضلعی حکومتیں محض نام کی رہ گئی ہیں'۔
جہانزیب کو ڈر ہے کہ اگلے سال غیر ملکی فوج کے انخلاء کے بعد طالبان اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، جس کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔
خیال رہے کہ اتوار کو افغانستان کے سب سے بڑے 'لویہ جرگہ' نے انتہائی اہم سیکیورٹی معاہدہ کی توثیق کر دی ہے،جس کے تحت کچھ امریکی فوجی 2014 کے بعد بھی افغان سر زمین پر موجود رہیں گے۔
تاہم افغان صدر حامد کرزئی نے معاہدے پر دستخط کے لیے کچھ شرائط سامنے رکھی ہیں۔
اس ساری صورتحال میں کچھ حلقے سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ معاہدہ شدت پسندوں کو روکنے کے لیے کافی ہو گا؟
باغیوں کی بڑھتی تعداد ماضی میں چھ سال تک طالبان کے لیے لڑنے والے ملا بتورائی نے بتایا کہ شدت پسندوں کی بڑھتی تعداد اور افغانستان میں غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد نے سیکورٹی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ننگرہار میں پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں بہت سے لوگوں نے بغاوت کا راستہ اختیار کیا ہے۔
ملا بتورائی نے بتایا کہ انہیں طالبان گروپ میں شامل ہونے پر افسوس ہے کیونکہ ان کے خیال میں طالبان صاف دل کے اور محض جہاد کر رہے تھے۔
'مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ پیسوں کی خاطر کرائے کے جنگجو تھے'۔
اس ساری صورتحال کے برعکس صوبہ کے نائب گورنر حنیف گردیوال کا اصرار ہے کہ ان کا علاقہ مستحکم ہے، تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 'دور دراز' علاقے ایک مسئلہ ہیں۔
جلال آباد میں اپنے دفتر میں موجود گردیوال نے کہا 'ہماری سرحد پاکستان کے بالکل قریب ہے اور مخالفین کو اکثر سرحد عبور کرتے دیکھا گیا ہے جو ہماری سیکورٹی کے لیے ایک خطرہ ہے'۔
جہاں کچھ لوگ غیر ملکی فوج کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو لے کر تشویش کا شکار ہیں، وہیں بہت سے لوگ نیٹو فورسز کے ملک چھوڑنے کا بے صبری سے انتطار کر رہے ہیں۔
جلال آباد کے نواحی سرجا علی خان گاؤں کے ایک کسان محمد قاسم نے اپنی زمین پر بڑی گیند نما گڑھوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ چار اکتوبر کو اس مقام پر نیٹو کے فضائی حملے میں چڑیوں کے شکار سے واپس لوٹنے والے ان کے دو بیٹے اور بھتیجا ہلاک ہو گئے تھے۔
گاؤں کے بالکل باہر ان لڑکوں کی قبروں پر ایک بڑے بینر پر جلی حرفوں میں انہیں 'شہید' قرار دیا گیا ہے۔
قاسم کا کہنا ہے 'میرے خیال میں غیر ملکی فوجیں ہمیں مارنے کے لیے ہی یہاں آئی ہیں'۔
'وہ ہمارے دشمن ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ہمیں تکلیف دینے کے علاوہ انہوں نے کبھی ہماری مدد کی ہےہو؟'۔
چار اکتوبر کو ہونے والے حملے کے اگلے روز نیٹو نے کہا تھا کہ ' انہوں نے جوابی حملے میں شدت پسندوں کو ٹھیک نشانے پر ہدف بنایا تھا'۔
تاہم نیٹو نے حال ہی میں اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
نائب گورنر گردیوال کے مطابق، نیٹو نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے واقعہ پر معافی مانگ لی تھی۔
لیکن یوسف کے لیے یہ کافی نہیں۔' میرے بچے فضا میں کسی بھی ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر ڈر کے مارے کمروں میں بھاگ جاتے ہیں'۔
'مجھے معذرت نہیں چاہیے بلکہ میں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی دیکھنا چاہتا ہوں'۔