مشرف راستا صاف؟

27 جنوری 2014
کب تک اسپتال میں، سابق فوجی سربراہ کو اپنے کیے کا سامنا کرنے پر تیار ہوجانا چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔
کب تک اسپتال میں، سابق فوجی سربراہ کو اپنے کیے کا سامنا کرنے پر تیار ہوجانا چاہیے۔ فائل فوٹو۔۔۔

عام حالات میں فوج کی طبّی سہولیات کے بعد کسی دوسرے کو بہتر نہیں گردانا جاتا۔ عام صورتوں میں، ایسا مریض جو علاج پر اپنی جیب سے رقم خرچ کرنے کا انتخاب کرے، مرضی کے مطابق کہیں بھی علاج کراسکتا ہے تاہم بعض اوقات حالات و واقعات ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کا موقف ہے کہ علاج بیرونِ ملک ہونا چاہیے۔ پاکستان میں امراضِ قلب کے علاج کی دستیاب سہولتوں کے ناکافی ہونے پر سابق آرمی چیف کے خدشات درست ہیں یا نہیں تاہم قائم کردہ میڈیکل بورڈ نے طبّی اور قانونی، دونوں صورتِ حال ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے رکھ دی ہیں اور اب عدالت تنے رسّے پر کھڑی ہے۔

جناب مشرف کے عدالت میں پیش نہ ہونے کا ایک سبب پیشہ ورانہ فیصلہ دینے میں فوجی ڈاکٹروں کے تاخیر ہے جس کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈالی جاسکتی ہے اور واقعی وہ اس کے ذمہ دار بھی ہیں۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ اس معاملے کو طول دینے کی ذمہ داری خود جناب مشرف کے اپنے کندھوں پر بھی آتی ہے۔

جو کچھ واضح ہوچکا وہ یہ کہ وہاں سے نہ نکلنے کے لیے خود سابق صدر کی یہ چال ہے جس کا مطلب ہے کہ جب تک وہ کسی نہ کسی طرح اسپتال سے باہر نہیں نکلتے تب تک ان کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ اسپتال میں داخلے اور ہنگامی طبّی طریقہ کار اختیار کرنے کے معاملے میں جناب مشرف یقیناً تنہا نہیں ہیں۔

ماضی میں خود سیاستدان بھی یہی راستا اختیار کرتے رہے ہیں تاہم سیاستدانوں نے خود کو عدالتوں کے روبرو پیش کیا لیکن اس مثال میں جناب مشرف ایسا کچھ کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔

اس کی وجہ شاید مقدمے کی نوعیت اور داؤ پر لگی ان کی ذات ہو؛ جہاں تک عدالتوں کا تعلق ہے تو بینظیر بھٹو کے قتل اور لال مسجد قتلِ عام کے مقدمات میں بھی سابق صدر ملوث ہیں تاہم انہوں نے کبھی خود کو مکمل طور پر عدالتی طریقہ کار کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا۔

پھر بھی اس امتزاج کو نظر انداز کرنا تقریباً نامکمن ہے: گذشتہ برسوں کے دوران سیاستدان ایسے مقدمات میں بھی خود کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑتے رہے کہ جہاں قانونی عمل کم اور سماعت غیر منصفانہ رہی لیکن یہاں، سابق آرمی چیف عدالت کے روبرو پیش نہ ہو کر، نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی شرمندہ کررہے ہیں، حالانکہ ریاست نے اب تک مقدمے اور اس کی سماعت کو شفاف اور منصفانہ رکھنے کی تمام تر کوشش کی ہے۔

اگر سزا سے بچنے کے لیے پریشانی میں اٹھایا گیا جناب مشرف کا یہ قدم شرمندگی اور ذلت کے احساس سے بالا نہیں تو شاید ان کے مشیروں کو ہی انہیں مُلک اورتاریخ کا احساس کرنے کی درخواست کرنی چاہیے۔

یقیناً، سن دو ہزار سات کے واقعات اور صرف تنہا جناب مشرف کی ذات پر توجہ مرکوز کرنا ریاست کی غلطی ہے تاہم اس سے بھی زیادہ یقینی امر، سابق آرمی چیف کے ہاتھوں آئین کی پامالی، ادارے اور ملک سے لیے گئے حلف سے غداری ہے۔

اس معاملے میں قانونی عمل محض سزا یا توازن کے بارے میں نہیں ہے: یہ سیاست کی جانب سے ایک پیغام بھیجنے سے متعلق ہے کہ پاکستان صرف جمہوری، آئینی اور سویلین کی زیرِ قیادت رہے گا۔

یہ مقصد ایک ایسے فرد کے مقدر سے زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے جس نے اپنی مرضی کے تحت اقتدار پر قابض ہو کر نظام کو ذاتی عزائم اور ارادوں کی بھینٹ چڑھادیا تھا۔

اب اقتدار چلے جانے کے بعد، انہیں اپنے افعال کے عدم جواز کو تسلیم کرنے پر تیار ہوجانا چاہیے۔

انگریزی میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں