مذاکرات: متاثرین کہاں ہیں؟

شائع February 9, 2014

ایک اور خودکش بمبار نے پشاور کے ایک شیعہ محلے کو نشانہ بناتے ہوئے نو افراد کو ہلاک جبکہ پچاس دیگر کو زخمی کر دیا- پچھلے چند ماہ میں خیبر پختونخواہ میں غیر پشتونوں کے خلاف جاری تشدد کی لہر میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے-

مسیحیوں اور شیعوں کو بڑی تعداد میں ان کی عبادت گاہوں اور سڑکوں پر ہلاک کیا گیا ہے- طالبان نے ان میں سے بہت سے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے- تاہم ہر خود کش بمبار نے جس طریقہ کار سے کام لیا ہے وہ طالبان ہی کا خاصہ ہے اور اس سے شہریوں کے خلاف جنگ میں ان کی ان کے کردار کے حوالے سے کوئی شک نہیں چھوڑا-

طالبان مذاکرات کے لئے تو آمادہ دکھتے ہیں تاہم وہ اپنا قاتلانہ انداز اور آلات چھوڑنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے- ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا انہیں معلوم بھی ہے کہ امن مذاکرات کا مطلب کیا ہے؟

امن مذاکرات میں ان افراد کی موجودگی سے، جنہیں نہ تو طالبان کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا ہے اور نہ ہی انہیں سیکورٹی کی صورتحال کی بہتری میں کوئی ذاتی دلچسپی ہے، کچھ زیادہ امید افزا بات نہیں-

زیادہ بہتر ہوتا اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر مسیحیوں، شیعوں اور بریلویوں کو بھی بٹھا لیا جاتا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان ایک ایسا کثیرالمذاہب معاشرہ رہ سکے، جہاں کسی خاص قسم کی مذہبی راسخ الاعتقادی کو طاقت کے زور پر نافذ نہیں کیا جا سکتا-

گو کہ میرے خیال میں طالبان کے ساتھ بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں، لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کے نام پر کچھ بات چیت ہو جائے- بناء کسی سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کے، بعد میں کی جانے والی کسی بھی کاروائی کو نقصان پہنچے گا- طالبان کے ساتھ موجودہ مذاکرات محض ایک ڈھونگ معلوم ہوتے ہیں جن میں نہ تو حکومت اور نہ ہی طالبان سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں-

دونوں ہی پارٹیوں نے مذاکرات کی ذمہ داری غیر نمائندہ افراد پر ڈال دی ہے- حکومت کی جانب سے مقرر کردہ چار رکنی کمیٹی میں نہ تو سیاستدان شامل ہیں اور نہ ہی حاضر سروس سرکاری ملازمین-

دوسری طرف طالبان کی جانب سے مقرر کردہ ٹیم میں وہ دیوبندی مذہبی عالم شامل ہیں، جنہوں نے ماضی میں طالبان کے مقاصد اور کاز کی طرف جھکاؤ دکھایا-

اب چاہے یہ مذاکراتی ٹیمیں بات چیت کے ذریعے کسی حل پر اتفاق کر بھی لیں، حکومت اور طالبان دونوں ہی اس نتیجے کو ویٹو یا رد کر سکتے ہیں کہ وہ اس عمل میں براہ راست حصہ لینے کے بجائے، اپنے نمائندوں کے ذریعے ملوث ہیں-
مجھے خاصی حد تک یقین ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی سنجیدہ کوششیں بھی کسی بامعنی اور قابل عمل حل یا تصفیے تک پہنچنے میں ناکام ثابت ہوں گی- نیچے میں اس کی وجوہات بیان کرتا ہوں-

پہلی تو یہ کہ طالبان، مختلف عسکریت پسند گروہوں کا ڈھیلا ڈھالا مجموعہ ہیں، جو بظاہر تو ایک مربوط قوت معلوم پڑتے ہیں تاہم، ایسا بالکل نہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بالکل جڑے ہوئے نہیں اور وہ سب اپنے اپنے علاقوں میں آپس میں کسی بھی قسم کی کوآرڈینیشن کے بغیر کام کرتے ہیں-

ایک گروپ یا گروہوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مذاکرات کے باوجود بہت سے عسکریت پسند گروپ، مذاکراتی عمل کا حصہ نہ ہونے کی بناء پر مذاکرات کے نتیجے میں پہنچنے والے حل یا تصفیے کو رد کر کے عسکریت پسندی جاری رکھ سکتے ہیں-

ایسے مذاکرات کا ایک ممکنہ نتیجہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہری علاقوں میں شہریوں پر حملہ نہ کرنے کے وعدے کے بدلے کسی اکثریتی عسکریت پسند گروپ کو ملک کے ایک دور افتادہ حصے پر آپریشنل خود مختاری دے دی جائے-

اصل میں ایسے مذاکراتی حل یا تصفیوں کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ اکثر چھوٹے چھوٹے گروپ اس تصفیے یا حل کو قبول کرنے کے بجائے بڑی تحریکوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں اور عسکریت پسندی جاری رکھتے ہیں-

شمالی آئرلینڈ یا دوسری جگہوں پر جہاں ریاست اور مسلح گروپوں کے درمیان مذاکرات ہوئے، وہاں کم از کم جدیدیت اور خوشحالی کی امنگیں مشترکہ تھیں- لڑنے والے گروپوں میں سیاسی اور اقتصادی معاملات پر کنٹرول کے حوالے سے چاہے لاکھ اختلافات ہوں، اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں تھا کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کیسا مستقبل دیکھتے ہیں-

میں شن فن کے جیری ایڈم اور مارٹن مکگینس کے انٹرویو دیکھتے ہوئے بڑا ہوا ہوں جب وہ آئرش ریپبلکن آرمی کی جانب سے آئرلینڈ اور برطانیہ کی حکومتوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی قیادت کر رہے تھے- کسی بھی موقع پر، نہ تو مسٹر ایڈم اور نہ ہی مسٹر مکگینس نے بچوں کے اسکولوں کو دھماکوں سے اڑا دینے یا اسکول جانے کی عمر کی بچیوں کو قتل کرنے کی بات کی-

دوسری جانب طالبان ہیں جو کسی بالکل ہی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو زیادہ تر بالکل ہی جاہل یا انتہائی کم پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہیں اور جو ایک مخصوص مذہبی فرقے اور مخصوص نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں- اپنے اور اپنے بچوں کے حوالے سے صحیح اور غلط کے بارے میں ان کے اور زیادہ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کی رائے اور خیالات ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف ہیں-

طالبان ہر اس شخص کو نشانہ بناتے ہیں جو اسلام کے ان کے ورژن سے اتفاق نہیں کرتا، وہ اسکولوں کو دھماکوں سے اس لئے اڑاتے ہیں کہ ان کی نظر میں یہ غیر ضروری ہیں، وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، انھیں بچوں کو نشانہ بنانے میں کوئی شرم نہیں آتی، وہ ڈاکٹروں کو نشانہ بناتے ہیں کہ وہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے ٹیکے لگاتے ہیں- سادہ الفاظ میں طالبان کے پاس ریاست چلانے کے لئے درکار جدیدیت کی سمجھ بوجھ اور تدبر سرے سے موجود ہی نہیں-

وہ ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس میں تمام انسانی پیشرفت کو ضائع کر کے ایسے رجعت پسندانہ ماضی کی طرف لوٹا دیا جائے جس میں ٹیکنالوجی، منطق، اور یقین، اظہار، اور سوچ کی آزادی سے انسان محروم ہو-

اسابیل دووستین اور بارٹ شورمن نے دہشت گرد اور عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ گفت و شنید کرنے کی کوششوں کا پتہ لگایا ہے- ان کے مطابق حقیقت میں "فوجی فتوحات، دیرپا اور مستحکم امن کے لئے بہتر امکانات پیش کر سکتی ہیں"-

انہوں نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے اسی طرح کی کوششوں کے حوالے سے تین مسائل کی نشاندہی کی ہے؛

١. پہلی تو یہ کہ مذاکرات کو اپنی کھوئی ہوئی توانائی اور وسائل بحال کرنے کے لئے درکار وقت حاصل کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جائے-

٢. دوسرے یہ کہ مذاکرات کے نتیجے میں سخت گیر موقف رکھنے والے، اپنے چھوٹے گروپوں کے ساتھ علیحدہ ہو جائیں اور وہ اپنی پرتشدد کاروائیوں میں مزید اضافہ کر دیں-

٣. تیسرا یہ کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تصفیے کے نتیجے میں وقتی ریلیف بھلے ہی مل جائے لیکن تشدد ایک چھوٹے سے وقفے کے بعد دوبارہ شروع کر دیا جائے-

طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ابتدا ہی غلط ہوئی ہے جہاں طالبان اور حکومت کی ٹیمیں اسلام آباد میں ایک دوسرے کو تلاش نہیں کر پائیں- ہر کوئی ایک دوسرے پر شبہ کر رہا ہے کہ اس کے پاس مخالف گروپ کی نمائندگی کا مینڈیٹ ہے بھی یا نہیں- دونوں ٹیموں کے ممبران طالبان کو اچھی طرح جانتے ہیں-

کسی کو اس بات پر فخر ہے کہ طالبان انھیں اپنا روحانی استاد مانتے ہیں تو دیگر چند کے بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح سے طالبان کی حمایت کی ہے-

مذاکرات کی میز پر موجود ایک یا زیادہ سے زیادہ دو افراد کو چھوڑ کر، طالبان کے بے رحمانہ تشدد کے شہری متاثرین کے لئے کبھی بھی کسی نے ہمدردی کا اظہار تک نہیں کیا-

سب سے اہم یہ کہ نہ تو کوئی خاتون، اقلیت یا متاثرین کا کوئی نمائندہ، ان مذاکرات کی میز پر بیٹھا ہے- ٹیموں کی تشکیل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ صرف فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے دیگر دور دراز علاقوں میں طالبان کی حکومت کا قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: شعیب بن جمیل

مرتضیٰ حیدر

مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmed Feb 10, 2014 02:30pm
Shias Bralevis and Ahmedis should accept they are second grade citizens!

کارٹون

کارٹون : 8 جولائی 2025
کارٹون : 6 جولائی 2025