ہم سب مذاکرات کی گفتگو میں مصروف ہیں- ہم باتیں کر رہے ہیں کہ کون مذاکرات کر رہا ہے، آیا یہ مذاکرات ہونے بھی چاہئیں، مذاکرات ہوں یا پھر جنگ، مذاکرات کی ناکامی کے بعد جنگ ہو یا پھر بمباری کر کے سب کو جہنم رسید کر دیا جائے اور پھر سب کچھ خدا پر چھوڑ دیا جائے-

توقعات کے مطابق، موضوع بحث شخصیات اور پروپیگنڈے پر مرکوز ہے- سمیع الحق کون ہیں اور ان کا ان سب سے کیا لینا دینا؟ مولانا عبدالعزیز فیشن میں انقلاب لے آئیں گے؟ اور یہ گیدڑ آدھی رات کو کیوں رونے لگے ہیں؟

اور پھر بیکار کی جھک جھک بھی تو ہے:

کیا ہمیں شریعت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اگر ہے تو کیوں؟

یہ بحث اسی جیسے تمام مباحثوں کی مانند ایسی ہی ہے جن کے بارے میں ہمارے دور کے سیاسی باوا، شیخ رشید نے خوب کہا ہے؛

"قوم کو ایک ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جس کے پیچھے ہم دوڑے ہی جا رہے ہیں لیکن پکڑنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے"-

میرے خیال میں، یہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوں گے- ایسا اس لئے کہ ایسی درمیانی کوئی راہ ہی نہیں جو نکالی جا سکے- بابر ستار نے پہلے ہی پچھلے معاہدوں کی تاریخ ننگی کر کے بیان کر دی ہے اور میں اس میں مزید کوئی اضافہ یا بہتری نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسا کرنے کی میری کوئی چاہ ہے-

حکومت کی جانب سے یہ سیاسی قدم کے سوا کچھ نہیں کہ وہ یہ دکھا سکے کہ اس نے پرامن حل کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی- اسے اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے ناقابل قبول مطالبہ پیش کیا جائے گا، جس کے بعد، ایک بہت بڑا حملہ کیا جائے گا یا پھر اگر کسی قسم کے معاہدے پر دستخط ہو بھی گئے تو ٹی ٹی پی اس کی پاسداری نہیں کرے گی-

اسی دوران، اطلاعات کے مطابق، فوجی تیاریاں جاری ہیں، گو کہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپریشن ناگزیر ہے- بہرحال، اگر آپ امن چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو جنگ کی تیاری کرنی ہوتی ہے-

اس معاملے میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ فی الحال مطلوبہ قسم کے تیز اور سرجیکل آپریشن کے لئے موسم سازگار نہیں-

دوسری جانب طالبان، ان مذاکرات کو مزید وقت اور قانونی جواز حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں- ان کی نگاہیں، افغانستان پر مرکوز ہیں جہاں انہیں اپنی مطلوبہ اسٹریٹجک گہرائی ملتی ہے-

کیا امریکیوں کا انخلاء کلّی ہو گا؟ کیا افغانستان کی فوج اسے سنبھالنے کے قابل ہے یا حالت سوویت یونین کی واپسی والی ہو گی؟ دونوں کا استحصال کرتے ہوئے کب تک ہم افغان اور پاکستانی خفیہ اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر سکیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ممکنہ طور پر ان کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہوں گے-

اسی دوران، وہ بھی پاکستان کو تقسیم کرنا چاہتے بالکل اسی طرح جیسے ریاست مختلف عسکریت پسند گروپوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے- بس فرق یہ ہے کہ ٹی ٹی پی یہ کام زیادہ بہتر طور پر کر رہی ہے- وہ مباحثے کا رخ بدلنے کے ماہر ہیں، جس کے لئے وہ پروپگنڈے کا استعمال کرتے ہیں اور تقسیم پیدا کرتے ہیں- وہ یقیناً اس کام میں ایک پریشان ریاست کے مقابلے میں بہتر ہیں-

پردے کے پیچھے ممکنہ حقیقت شاید یہی ہے- تاہم، یہاں بھی ٹرک کی لال بتی موجود ہے اور وہ ہے ممکنہ آپریشن- اوہ ہاں، شمالی وزیرستان ایجنسی میں ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ کیا جانا چاہئے، لیکن یہ نہیں کر سکتے، اور وہاں ختم ہونا بھی نہیں چاہئے- اصل آپریشن تو ہماری سڑکوں، گلیوں میں ہو گا کہ دہشت گرد تو ہر اہم شہر میں موجود ہیں، اور یہی وہ سیل ہیں جنہیں وہ جوابی وار کیلئے استعمال کریں گے- ان کو ڈرونز اور گن شپس سے نہیں بلکہ بروفت خفیہ اطلاعات اور کاروائی کے ذریعے ختم کرنا چاہئے-

پھر وہ مدرسے اور مسجدیں ہیں جہاں "شیعہ کافر" کی تسبیح پڑھی جاتی ہے- ان پر بھی قابو پانا چاہئے اور اگر ضرورت ہو تو اس کے لئے بے رحم اقدامات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں- اور کسی غلط فہمی میں نہ رہئے گا، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو فاٹا میں ہر آپریشن نامکمل رہے گا، کیونکہ یہ صرف وقت کی بات ہوگی کہ ہم اپنی روایتی لاپرواہی میں ڈوب جائیں گے اور دہشت گردی کی اگلی لہر ہمیں بہا کر لے جائے گی- اور ایسا ہی ہو گا، یقین جانئے-

اب اسی نوٹ پر ایک مزیدار چیز- چند روز پہلے ڈان نے حسان سواتی کی ایک تصویر شائع کی، جو کہ ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے رکن ہیں- ان کے برابر میں مست گل بھی موجود تھے جس کی مہندی لگی کھچڑی داڑھی، سواتی کی شاندار لٹوں اور داڑھی سے بالکل الگ تھی-

گل، حزب المجاہدین کے سابقہ ممبر ہیں، وہ گروپ جو ہندوستانی کشمیر میں لڑا تھا- وہ 2003 سے منظر عام سے غائب تھے اور حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ممکنہ رکن کے طور پر سامنے آئے ہیں-

پھر، حافظ سعید کا آہستہ آہستہ مین اسٹریم میں آنا، اور پھر مسعود اظہر کا یکدم منظر عام پر آنا- یہ وہی جیش محمد والے حضرت ہیں، قندھار ہائی جیکنگ کیس، جن کی وجہ شہرت بنا- وہ واپس کیوں آئے ہیں اور ان کا مست گل سے کیا لینا دینا؟

اصل میں، اچھے جہادی 9/11 کے بعد سے ایسے باغی بن چکے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں، جنہیں ان کی مرضی کے تھیٹر میں کام کرنے کی اجازت نہیں- لہٰذا، ایسے لوگوں کے لئے جو ریاست کی طرف سے راندہ درگاہ پائے ان کے لئے ان عناصر میں جنہیں ریاست پہلے ہی باغی اور بنیاد پرست قرار دے چکی ہے، اپنی پناہ گاہیں نظر آنے لگی ہیں-

ان کا کھلے بازوؤں کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا اور کیوں نہ کیا جائے؟ یہ پہلے ہی سے نظریاتی پراپیگنڈے سے متاثر اور بھرپور تربیت یافتہ ہیں- یہ بھرتی کیلئے بہترین بلکہ شاندار ہیں-

لہٰذا، وسیع تناظر میں اظہر کے دوبارہ فعال ہونے کو گل جیسے افراد کو اپنی طرف مائل کرنے کے حربے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے- شدید ضرورت کے تحت، پرانا کھیل دوبارہ دہرایا جا رہا ہے- کچھ وقت کے لئے، شاید یہ قدم کام کر جائے، لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان عسکریت پسندوں اور جہادیوں کے بارے میں واحد 'اچھی' چیز یہ ہے کہ یہ ہمیں شاید سب سے آخر میں ماریں-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری ایک اسٹاف ممبر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (1) بند ہیں

SYEDA SARA BATOOL Feb 12, 2014 04:28pm
superb blog.....keep it up