عام آدمی' سرکار کے اڑتالیس دِن'
دسمبر میں ہونے والے وِدھان سبھا انتخابات میں ستر میں سے اٹھائیس نشستیں حاصل کرنے کے بعد کانگریس کے بیرونی اتحاد کے ساتھ ہندوستانی دارالحکومت میں حکومت بنانے والی عام آدمی پارٹی اقتدار میں اڑتالیس دن گزارنے کے بعد مستعفی ہو چکی ہے۔
ان اڑتالیس دنوں میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب ہندوستانی میڈیا پر عام آدمی پارٹی سے متعلق کوئی خبر نشر نہ کی گئی ہو۔ ریاستی انتخابات میں جھاڑو کا انتخابی نشان رکھنے والی جماعت نے ان اڑتالیس دنوں میں کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جن کو نا صرف دہلی والے بلکہ تمام ہندوستانی کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔
28 دسمبر 2013 کو دہلی حکومت کا حلف اٹھانے کے بعد عام آدمی پارٹی نے دہلی والوں کے دلوں کے ساتھ ساتھ حکومت میں بھی اڑتالیس دن گزارے اور اس عرصہ میں منتخب شدہ ممبران نے دہلی والوں کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشیش کی۔
ریاستی سرکار کے پاس جو کچھ بھی اختیارات ہوتے ہیں، عام آدمی پارٹی نے انھیں بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور جو اختیار ان کے پاس نہیں تھے، اس کے لئے جماعت نے دھرنا دیا تاکہ کم از کم لوگوں کی ہمدردی تو حاصل کی جا سکے۔
عام آدمی پارٹی کے اس چھوٹے سے دور اقتدار میں نئے سال کے پہلے دن کا سورج دہلی والوں کے لئے مفت پانی کی نوید لیکر طلوع ہوا۔ بیمار ہونے کے باوجود پارٹی کے سربراہ اروند کیجروال نے اپنے گھر ہونے والی میٹنگ میں دہلی کے رہائشیوں کے لئے 700 لیٹرز روزانہ یا 20000 لیٹرز ماہانہ مفت پانی کی فراہمی کا اعلان کیا۔ اعلان کے بعد اروند کی جانب سے ٹوئٹر پر پیغام دیا گیا کہ؛
"یہ حکومت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ عوام کو زندگی کے لئے درکار پانی فراہم کرے"۔
اس اعلان کے بعد بی جے پی اور کانگریس کی جانب سے ردعمل فوراً سامنے آیا۔ اب اگر بی جے پی اور کانگریس یہ چاہیں کہ بچّہ پہلی جماعت میں داخلے کے ایک ماہ بعد ہی دہم کلاس کا مسئلہ فیثا غورث بھی حل کرنا سیکھ لے تو بیچاری جنتا پارٹی اور کانگریس کو ہوش کے ناخون لینے چاہئیں۔
اس اعلان کے اگلے روز ہی 400 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے 50 فیصد تک سبسڈی کا اعلان کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عام آدمی پارٹی کی حکومت کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے آڈٹ کے احکامات بھی دیئے گئے۔
2 جنوری کو اعتماد کا ووٹ لینے سے قبل وزیر اعلٰی اروند کیجروال کا کہنا تھا کہ اگلے 48 گھنٹوں میں حکومت رہے یا نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ دہلی والوں کے لئے جو ہو سکتا ہےکرجائیں.
ہر شہری کو بااختیار بنانے کی غرض سےعام آدمی پارٹی کی جانب سے بنائے جانے والی اینٹی گرافٹ ہیلپ لائن پر 20 دِنوں میں رشوت لینے والے افسران سے متعلق ایک لاکھ کالز موصول ہوئیں۔ تاہم ان کالز کے نتیجے میں صرف تین گرفتاریاں ہی عمل میں آئیں۔ جس کے بعد اروند کیجروال کو یہ سوچنا پڑا کہ اینٹی کرپشن برانچ میں کام کرنے والے پانچ سینئر افسران کو ہٹانا پڑے گا۔ ایک سینئر افسر کے مطابق نئے افسران کی تعیناتی سے گرفتاریوں کی تعداد لازما اوپر جائیگی۔
صحت کے شعبے میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں درکار روزمرّہ دواؤں کی ایک لسٹ بنائیگی۔ وزیر صحت نے پچیس ہسپتالوں کے جائزے کے بعد عوام سے ای میل کے ذریعے مشورے طلب کئے اور افسران کے مطابق وزیر صحت کو دو ہزار سے زائد ای میلز موصول ہوئیں۔
تعلیم کے وزیر بھی دہلی کے بچوں کے بہترین مستقبل کے لئے میدان میں آئے اور انہوں نے والدین کے لئے ایک ٹیلی فون ہیلپ لائن قائم کی۔ جس پر فون کر کے والدین اپنی شکایات درج کروا سکتے تھے۔ خدمت گزار سکولوں کے معائنے کے بعد والدین سے بھی ان کی شکایات کے ازالے سے متعلق رابطے میں رہتے اور اس کے ساتھ ساتھ خدمت گزار سرکاری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بناتے تھے۔
دہلی والوں کے لئے سفری سہولیات سے متعلق عام آدمی پارٹی اپنے اڑتالیس روزہ دور اقتدار میں کوئی خاطر خاہ قدم نہیں اٹھا سکی۔ مگر وزیر اعلٰی اروند کیجروال کی جانب سے دہلی والوں کے لئے پندرہ ہزار آٹو رکشہ پرمِٹس دینے کا اعلان کیا گیا۔
اس اعلان کے بعد مستقبل میں دہلی کے رہائشیوں کو شادی کے لئے رشتہ دستیاب ہو نہ ہو مگر رکشہ ضرور دستیاب ہوگا۔ اس کے علاوہ رکشہ ڈرائیورز کو پولیس گِری سے بچاؤ کے لئے اروند پوری طرح ڈٹے رہے جس کی سب سے بڑی وجہ انتخابات میں رکشہ یونینز کی عام آدمی پارٹی کے لئے چلائی گئی انتخابی مہم میں کلیدی کردار ہے۔
رکشے والوں سے اروند کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب انہیں ایک ہسپتال کے افتتاح کے لئے مدعو کیا گیا تو اروند نے ایک ساٹھ سالہ رکشہ کھینچنے والے وِجے بابا کو افتتاحی فِیتا کاٹنے کے لئے بلایا۔
عورتوں اور بچوں کی ترقی کی وزیر راکھی بِرلا کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ عورتوں کو مجرموں سے بچانے کے لئے ایک خصوصی کمانڈو فورس تشکیل دی جائیگی۔ اروند کیجروال کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ سابق فوجیوں اور مارشل آرٹس کے ماہرین کی ایک اسپیشل فورس "مہیلا سرکشا منڈل" بنائی جائیگی۔
دہلی والوں کی شکایات سننے کے لئے "جنتا دربار" بلایا گیا۔ سیکریٹریٹ کے باہر سڑک پر ہونے والا یہ دربار اس قدر شکایتی ہو گیا کہ لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور بیشتر لوگ دربار پہنچ ہی نہ سکے۔ جس کے بعد سابق وزیر اعلٰی کی جانب سے مزید بہتر انتظامات کے ساتھ دوبارہ جنتا دربار بلانے کا وعدہ کیا گیا جو دور اقتدار مکمل ہونے تک تو وفا نہ ہوسکا۔
دہلی کے بے گھر رہائشیوں کے لئے اروند کیجروال نے سوچا کہ کیوں نہ ناکارہ بسوں کو ان غریب بے سہارا لوگوں کے لئے مسکن بنا دیا جائے اور اس کے لئے احکامات دیئے گئے کہ دہلی کی سڑکوں پر سونے والوں کی تعداد معلوم کی جائے۔
حکام کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ پورے دہلی میں 212 مقامات پر صرف 4012 افراد کھلی چھت تلے رات کو سوتے میں خواب دیکھنے پر مجبورہیں۔ جن کے لئے عام آدمی پارٹی کی جانب سے ناکارہ بسوں کو ردوبدل کے بعد قابل رہائش بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ جماعت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ مزید 100 جائے پناہ تعمیر کی جائیں گی۔
جتنا بھی عرصہ عام آدمی پارٹی دہلی میں اقتدار میں رہی، اپنے آپ کو دوسروں سے الگ ثابت کرنے میں لگی رہی۔ کیجروال ہر اہم موقع پر ایک خاص ٹوپی پہنے اور کانوں پر مفلر لپیٹے دکھائی دیئے۔
اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بھی اروند ٹوپی اور مفلر اوڑھے اسمبلی پہنچے۔ جس پر بی جے پی کی جانب الزام لگایا گیا کہ اروند نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔
اروند جہاں کہیں بھی جاتے چاہے وہ دھرنا ہو، سیکریٹریٹ ہو یا پھر ٹی وی شو۔ وہ ہمیشہ مفلر اوڑھے ہی دکھائی دیئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ رپبلک ڈے پر ہونے والی صدارتی تقریب میں انہیں تحفے کے طور پر مفلر ہی دیا گیا۔
عام آدمی پارٹی کے اس مختصر سے دور حکومت میں ممبران کی سادگی بھی دہلی والوں کو بہت مہنگی پڑی اور یہی وجہ ہے کہ جب ممبران تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے بزریعہ میٹرو گئے تو سارے میٹرو سٹیشنز پر سیکیورٹی کی وجہ سے بھیڑ اکٹھی ہوگئی اور باقی دہلی والوں کا سفر انگریزی کے 'سفر' میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے علاوہ جہاں سابق وزیر اعلٰی رہائش پزیر تھے۔ وہاں کے رہائشی بھی سیکیورٹی اور میڈیا کی موجودگی کی وجہ سے اپنے کئے ہوئے انتخابی فیصلے پر پچھتاتے رہے۔
یہ تمام تفصیلات ایسے کارناموں سے متعلق ہیں۔ جن میں عام آدمی پارٹی کے منتخب شدہ ممبران نے اپنے دور حکومت میں کچھ نہ کچھ پیشرفت کی ہے۔ لیکن بہت سارے دعوے ایسے رہے جو پارٹی نے اقتدار میں آنے سے پہلے کئے تھے۔ اس کے علاوہ متعدد موقعوں پر عام آدمی پارٹی نے دہلی شہر کا سکون بھی برباد کیا۔
عام آدمی پارٹی کی دہلی میں حکومت بننے کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وزیر اعلٰی اروند کیجروال ایک سماجی کارکن کی زندگی چھوڑ کر سیاسی طور پر آگے بڑھیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہوں نے اپنی ہی حکومت ہوتے ہوئے پانچ پولیس والوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ وہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے بھی وزیر اعلٰی کی حیثیت سے اس مسئلے کا حل نکال سکتے تھے۔ مگر انہوں نے سڑک پر آکر عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
رہی سہی کسر تب نکل گئی جب کچھ لوگوں نے اجتجاج میں حصّہ لینے کے لئے پولیس کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کو توڑ ڈالا، جس کے نتیجے میں تیس لوگ زخمی ہوگئے۔
ایک اور مقام پر عام آدمی پارٹی کے جیالوں نے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ جس کے بعد دو پولیس اہلکاروں کو زخمی ہونے کی وجہ سے محکمے سے چھٹیاں لینی پڑیں۔ تاہم وفاق نے اپنے دارالحکومت کے وزیر اعلٰی کی تھوڑی عزّت رکھی اور دو پولیس افسران کو چھٹی پر بھیج دیا۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اقتدار ملے اور پھوٹ نہ پڑے۔ عام آدمی پارٹی کتنی بھی انقلابی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے عہدیداران ہیں تو انسان ہی۔ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد اروند کیجروال تو وزیر اعلٰی بن گئے۔ مگر ان کے کچھ ساتھی پیچش میں مبتلا ہوگئے۔
ان میں سے ایک لکشمی نگر سے منتخب ہونے والے ونود کمار ہیں۔ جنھوں نے دو مرتبہ سرعام اپنی جماعت کے سربراہ کو جھوٹا کہہ دیا اور کہا کہ وہ اکیلے ہی سارا کچھ چلا رہے ہیں۔ اروند کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ پہلے ونود کمار منسٹر بننا چاہتے تھے اور اب وہ لوک سبھا انتخابات کے لئے ٹکٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں۔
میڈیا کی طرف سے پزیرائی حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی میڈیا کو ہی نشانہ بنانے لگ پڑی۔ اروند کیجروال نے میڈیا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خلاف منفی کوریج کی وجہ حریف جماعتوں اور میڈیا ہاؤسز کے مابین اتحاد ہے۔
عام آدمی پارٹی کی وزیر قانون نے تو ایک رپورٹر کو یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے لئے نامزد نریندر مودی نے سوال کا جواب لینے کے لئے کتنے پیسے دیئے ہیں۔
اٹھائیس جنوری کو ایک ہندوستانی چینل این ڈی ٹی وی کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق چالیس فیصد لوگ عام آدمی پارٹی کی حکومت سے بہت مطمئن رہے۔ اٹھارہ فیصد افراد نے حکومت کو اچھا، بیس فیصد افراد نے برا اور دس فیصد افراد نے اوسط درجے کی حکومت قرار دیا۔
جو بھی کہیں، عام آدمی پارٹی نے اپنے اس اڑتالیس دنوں کے دور اقتدار میں ہندوستان میں کھلبلی مچا دی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں عام آدمی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اپریل مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں عام آدمی پارٹی ہندوستانی ووٹرز کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے وقت ایک مرتبہ سوچنے پر مجبور ضرور کریگی۔
اروند کیجروال کی جانب سے حکومت سے مستعفٰی ہونے کا اعلان اس وقت سامنے آیا جب جن لوک پال بِل کی منظوری کے لئے کانگریس نے عام آدمی پارٹی کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجروال کی جانب سے حکومت سے مستعفٰی ہونے کا اعلان کیا گیا اور انہوں نے اپنے استعفٰی میں درخواست کی ہے کہ دہلی میں دوبارہ انتخابات کر وائے جائیں۔
اگر دہلی میں انتخابات دوبارہ ہوتے ہیں تو کیا عام آدمی پارٹی اٹھائیس سے زائد نشستیں لینے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ یا پھر پہلی بار کی طرح اس بار بھی بی جے پی یا کانگریس سے الحاق کرنا پڑیگا۔ اس کا فیصلہ وقت ہی کریگا۔