نام میں کیا رکھا ہے؟
بہت کچھ، اگر نام 'طالبان خان' ہے تو۔
جس نے بھی یہ نام تجویز کیا اسکو شائد یہ اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ کیسا مکمل طور پر چسپاں ہونے والا لقب ثابت ہوگا-
دینے والے نے شائد یہ نام طنزیہ دیا ہو، لیکن یہ مکمل طور پر الہامی ثابت ہوا-
ٹی ٹی پی نے، مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کے سربراہ کا نام اپنی تحریک کیلئے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر تجویز کیا تھا اور انہیں واقعی بہت صدمہ ہوا جب انہوں نے اس اعزاز کو قبول کرنے سے انکار کردیا- طالبان کے ایک نمائندے نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ عمران خان کی نامزدگی ان کے اچھے کام کی وجہ سے تھی-
وہ اچھے کام کیا تھے؟
دہشت گردوں کی لمبی قتل و غارت گری کی مہم کے باوجود ان کی مذمّت کرنے سے ان کا تسلسل کے ساتھ انکار؟
امریکی ڈرون حملوں کی شدّومد کے ساتھ مذمّت کیونکہ بس وہی ایک ہتھیار ہے جس سے طالبان ڈرتے تھے؟
یا پھر خیبرپختونخوا جہاں پِی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں سے نیٹو کنٹینرز کے گزرنے کا راستہ بلاک کرنے کا عمل؟
عمران خان کے عالمی نقطۂ نظر کے بارے میں الجھن اسی وقت دور ہوگئی جب پی ٹی آئی کی حکومت نے پشاور یونیورسٹی میں چند نیک نیت لوگوں کو ملالہ یوسف زئی کی سوانح عمری کی اجراء کی تقریب کی اجازت نہیں دی-
اگرچہ کہ صوبے میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے، لیکن جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں- حالانکہ وہ اپنے وزیروں کے فیصلے کو ختم کرسکتے تھے لیکن انہوں نے صرف ٹویٹ کرنے پر اکتفا کیا-
خیال رہے کہ پی ٹی آئی خود کو تمام پاکستانیوں کی جماعت کہتی ہے جس میں عورتیں اور اقلیتیں بھی شامل ہیں- ان کا طالبان کے بارے میں مبہم رویہ خود اپنے مینی فیسٹو کی تردید کرتا ہے، کیونکہ جہادی عورتوں کو گھروں میں بند رکھنا چاہتے ہیں؛ شیعوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں، تو ان بدقسمت لوگوں میں سے کون اور کیوں ان کی حمایت کرنا چاہیگا؟
سالہا سال سے، پی ٹی آئی کے سربراہ کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ ہے- اس میں وہ اکیلے نہیں ہیں- دائیں بازو کی جماعتوں کے سارے سیاست دان یہی منتر دہراتے رہے ہیں-
اب تک تو، ٹی ٹی پی نے بات کرنے سے انکار کیا ہے، یا ان معاہدوں کو وقفہ کے طور پر اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرنے کیلئے استعمال کیا- بار بار انہوں نے اپنا عہد توڑا ہے اور جب جب چاہا ہے نئے حملے کئے ہیں-
اس بار بھی، ٹی ٹی پی کے ممبروں نے پشاور میں بم دھماکہ کیا جس میں کافی لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے- اور یہ اس وقت ہوا جب دونوں طرف کی مذاکراتی ٹیمیں شہر میں 'امن بات چیت' کرنے کیلئے جمع تھیں-
ٹی ٹی پی کی ٹیم کے دو ممبر، مولانا سمیع الحق ('بابائے طالبان') اور مولانا عبدالعزیز (لال مسجد برقع کے شہرت یافتہ)، نے یہ اعلان کیا ہے طالبان شریعت کے نفاذ سے کم کسی چیز کو تسلیم نہیں کریں گے-
ظاہر ہے، یہ آئین کو منسوخ کئے بغیر ممکن نہیں ہوگا- تو بات کس چیز کے بارے میں ہوگی؟
اگرچہ نوازشریف نے اعلان کیا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کو 'مکمل اختیارات' حاصل ہوں گے، میں نہیں سمجھتا کہ یہ اختیارات ریاست کو طالبان کے حوالے کرنے کے بارے میں ہونگے- حکمران پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت سے بہت کم تعداد ہے جو کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے ضروری ہوتی ہے-
ٹی ٹی پی کے دوسرے مطالبات میں قیدیوں کی رہائی اور فوج کی قبائلی علاقوں سے واپسی شامل ہے- سیکیورٹی فورسز ان میں سے کسی پر بھی عمل درآمد کو پسند نہیں کرینگی جنہوں نے اس جنگ میں بہت خون بہایا ہے جبکہ حکومت نے ان حملوں کا جواب دینے سے ان کو روک دیا ہے، اب ان سینکڑوں سخت گیر قاتلوں کو آزاد پھرتے ہوئے دیکھنا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا-
اور فاٹا سے فوجیں واپس بلانے کا مطلب ریاست کی خودمختاری کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے قرون وسطیٰ کے وحشی سپاہیوں کے حوالے کردینے کے برابر ہوگا- اگرچہ کہ عوامی حافظہ بہت کم ہوتا ہے لیکن یہ اتنی پرانی بات بھی نہیں جبکہ افغانی طالبان عورتوں کی ایک انچ جلد دکھائی دینے پر ان پر کوڑے برساۓ جارہے تھے اور مرد ڈاکٹر عورتوں کا علاج نہیں کر سکتے تھے- موسیقی اور کھیل پر پابندی تھی- تعلیم صرف دین تک محدود تھی- لڑکیاں اسکول نہیں جاسکتی تھیں-
کیا ہمیں ایسا پاکستان چاہئے؟
کئی سالوں میں ٹی ٹی پی نے بہت سارے اسکول اور کالج تباہ کردئے خصوصاً وہ اسکول اور کالج جہاں لڑکیاں پڑھتی تھیں- انہوں نے ویڈیو کی دکانوں اور حجاموں کی دکانوں پر حملہ کیا جہاں لوگ شیو بناتے تھے- اس طرح انہوں نے اپنا ارادہ ظاہر کردیا کہ ان کی حکومت ہوگی تو وہ کیا کرینگے-
حقیقت میں، ہمارے پاس طالبان کی حکومت کا بلیو پرنٹ موجود ہے- وادی سوات کی صورت میں جب یہ ان کے قبضے میں کچھ عرصے کیلئے تھی- بازاروں میں خون بہتا تھا لوگ باگ جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گئے- یا جو رہ گئے تھے وہ خوف کے ماحول میں جی رہے تھے-
مولانا فضل اللہ، جنہیں لوگ اس زمانے میں ملا ریڈیو کے نام سے جانتے تھے، اس زمانے میں طالبان کے لوکل کمانڈر تھے؛ اس کے بعد، اب طالبان کے امیر کے طور پر ان کی ترقی ہو گئی ہے-
یہ وہ لوگ ہیں جن سے عمران خان، نوازشریف اور کئی دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان سے مذاکرات کریں- جب تک ہمارے لیڈر صاحبان اس خطرے کی صحیح نوعیت اوراس کے اثر کی حقیقت کو سمجھیں گے، مجھے ڈر ہے کہ پاکستان اندھیری پستیوں میں ڈوبتا چلا جائیگا-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (2) بند ہیں