تھرپارکر کا سبق
ضلع تھرپارکر میں دولتمند چندہ دینے والوں اور امدادی کام کرنے والے قافلوں کی ریل پیل میں ہماری توجہ سنگین مساِئل کے طویل مدتی حل سے نہیں ہٹنی چاہیئے خواہ یہ مسائل اس علاقے میں عارضی نوعیت کے ہوں یا مستقل نوعیت کے-
موت کے منہ میں جانے والے بچوں کی تصویریں دیکھ کر جس غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اس کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے لیکن یہ دکھ اور غم و غصہ بے معنی ہوگا اگر اس صورت حال پر قابو پانے کے اقدامات نہ کئے جائیں-
بلا شبہ، ریاستی ایجنسیوں اور سول سوسائٹی نے اس انسانی مسئلہ کی جانب فراخدلی اور بروقت دلچسپی ظاہر کی- سنسنی خیز رپورٹنگ، غلط معلومات رکھنے والے مبصرین اور عوام کی تکالیف سے سیاسی فائدہ اٹھانے والوں کی وجہ سے جو کنفیوژن پھیل رہا تھا اسے باخبر غیر ریاستی مبصرین کی کوششوں سے بڑی حد تک ختم کردیا گیا-
اب پہلے کے مقابلے میں یہ بات خاصی واضح ہے کہ ضلع تھرپارکر کے بعض حصوں کی آبادی کو تین طرح کی بدقسمتیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا: ایک تو یہ کہ اس بار جیسا قحط پڑا اتنا شدید گزشتہ چند برسوں میں نہیں پڑا تھا، سردی بھی اس بار غیرمعمولی طور پر لمبے عرصے کے لئے اور شدید پڑی، تیسرے یہ کہ، متاثرہ آبادی کو کھانے پینے کے سامان اور طبی امداد کی فراہمی ناکافی اور غیر موثر تھی-
ان تمام مصائب کی وجہ قدرتی عناصر نہیں ہیں- مسلسل قحط سالی کی وجہ سے پانی کی قلت کا ہوجانا قدرتی امر ہے، لیکن لوگ روایتی طور پر عارضی نقل مکانی کے ذریعے اس مشکل کا مقابلہ کرتے آئے ہیں- سردی کی شدت کی وجہ سے بچے اس لئے بیمار پڑے کہ انھیں صحت کی مناسب سہولتیں حاصل نہیں تھیں اور صورت حال جو بدتر ہوئی اس کی وجہ انتظامیہ کی ناکامی تھی، جسکی ذمہ داری انسانوں پر ہے-
تھر کے خاندانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس صورت حال کا اسی طرح مقابلہ کیا جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے آئے ہیں------وہ سندھ کے ایسے علاقوں میں چلے گئے جہاں پانی تھا، ان کے مویشیوں کے لئے میدانوں میں گھاس تھی اور جہاں انھیں کبھی کبھار کام بھی مل سکتا تھا- (ضمناً، یہ کہ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس بار تھر اور چولستان کے ریگستاں سے مساوی تعداد میں خاندانوں--- 175000---- نے نقل مکانی کی ہے)- یوں معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے مختلف وجوہات کی بناء پر نقل مکانی نہیں کی وہ مصائب کا زیادہ شکار ہوئے-
موسم کی شدت میں کمی کے نتیجے میں بچوں کی شرح اموات میں کمی واقع ہوگی اور جو لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ بھی واپس آجائینگے اور تھر کے امور کے ماہر ڈاکٹر کھنگھرانی کے مطابق موت اور غیر متوازن غذا کی ساری کہانیاں بھلا دی جائینگی-
غور طلب بات یہ ہے کہ قحط سالی کا چکر، نقل مکانی اور قلیل مدت کے لئے علامتی امدادی کارروائیاں کیا اسی طرح جاری رہینگی- اگر حکومت پرعزم ہو تو پھر برسہا برس تک جاری لوگوں کی تکالیف کا خاتمہ کرنا نا ممکن نہیں ہے-
پہلا کام تو یہ ہونا چاہئے، بقول جناب جاوید جبار کے خوبصورت فقرے کے کہ "حقائق کے قحط"پر قابو پایا جائے- ہمیں نہیں معلوم کہ موسمی نقل مکانی کا ریکارڈ کس حد تک رکھا جاتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اب یہ کام شروع کیا جائے اور نقل مکانی اور قحط سے متاثرہ آبادی کی واپسی کا مستند ریکارڈ رکھا جائے-
نقل مکانی کی ایک اہم وجہ مویشیوں کے لئے چارے کی قلت ہے جو متاثرہ آبادی کی واحد معاشی دولت ہے- اگر باہر سے چارہ منگوایا جائے اور جانوروں کی دیکھ بھال کا موثر انتظام کیا جائے تو نقل مکانی میں کس حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے؟
مصائب اور تکالیف کے جتنے واقعات سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ مواصلات، ٹرانسپورٹ اور رہنمائی کے موثر نظام کی کمی ہے- تھر میں متوقع قحط کی رپورٹ دسمبر 2013 سے آنے لگی تھی- کیا ان رپورٹوں کے بارے میں متعلقہ انتظامیہ کو آگاہ کیا گیا؟ اگر کیا گیا تھا تو آفات کا مقابلہ کرنے والی ایجنسیوں نے کیا اقدامات کئے؟ اگر مقامی حکومتیں ہوتیں تو کیا اس سے فرق پڑسکتا تھا؟
عقلمندی کی بات تو یہ ہوتی کہ تھرپارکر (یا چولستان)کی آبادی کا تحفظ اس علاقے کے ترقیاتی منصوبے کا لازمی حصہ ہوتا- اس علاقے میں اسکول کی عمارتوں کی سب سے زیادہ تعداد کا قومی ریکارڈ رکھنے پر جو رقم صرف کی جاتی ہے (جو کام کرنے والے اسکولوں کی تعداد سے مختلف معاملہ ہے) بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ رقم غذائی اشیاء اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کیجاتی-
ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقیات اور آبادی کی بہبود کی ایجنسیاں تھرپارکر اور اسکے ملحقہ علاقوں کی جانب خصوصی توجہ دیں کیونکہ یہاں غیرمسلموں کی بڑی تعداد رہتی ہے- میڈیا رپورٹیں اس بات پر خاموش ہیں کہ غیر- مسلم آبادی کو خاص طور پر ان لوگوں پر جنھیں اچھوت قرار دیا جاتا ہے حالیہ بدترین قحط میں کیا گزری، گو کہ ہم یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہینگے کہ انھیں اپنے مسلمان پڑوسیوں سے زیادہ تکالیف سے نہیں گزرنا پڑا- اس تشویش کی وجہ یہ ہے کہ غیرمسلموں کوان کے مساوی طبی خدمات کی سہولتوں تک رسائی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ان کو مالی امداد دیجاتی ہے-
اگرچہ کہ موجودہ انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ہرممکن کوشش کرنا ضروری ہے- اس غیر مراعات یافتہ کمیونٹی کے مصائب کو ختم کرنے کے لئے دو اقدامات لازمی ہیں- سب سے پہلے تو یہ کہ عوام کو موقع دینا ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات کی خود دیکھ بھال کریں- پاکستان کے تمام علاقوں میں فوری طور پر جمہوری اور موثر مقامی حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہے اور تھر، چولستان، کیلاش، فاٹا اور پاٹا میں تو اس کی کہیں زیادہ ضرورت ہے-
دوسرے یہ کہ، ریاستی سرپرستی میں ہونے والی سماجی- معاشی ترقی کی جانب جکومت کی بلا وجہ مخالفت کے باوجود، ایک اعلیٰ اختیاراتی تنظیم قائم کرنا ضروری ہے جو ملک کے پسماندہ علاقوں میں بنیادی کام انجام دے- تھر میں یہ تنظیم غذائی اشیاء اور چارہ کا ذخیرہ کرسکتی ہے، انفرا اسٹرکچر میں موجود نقائص کو ختم کرسکتی ہے، مویشیوں کے علاج معالجہ کی سہولتوں کو بہتر بنا سکتی ہے اورعوام کی معاشی سرگرمیوں کے دائرہ کو وسیع کرسکتی ہے-
اس کے نتیجے میں افلاس میں کمی ہوگی جو قحط، بچوں کی زیادہ شرح اموات، عورتوں کی اموات اور انکی خراب صحت کی اہم وجہ ہے- یہ اور بھی اچھا ہوگا کہ اس تنظیم میں ایک خصوصی شعبہ قائم کیا جائے جو مقامی آبادیوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے کام کرے لیکن اس کا ترقیاتی منصوبے کے نقشہ پر ابھی تک کوئی نام و نشان نہیں ہے-
بچوں کی موت پر آنسو بہانا لیکن زندگی میں ان کی ضروریات کو نظرانداز کرنا اور جب غریبوں پر قیامت ٹوٹ پڑے تو انھیں بھاری بھرکم چیک دینا کوئی اچھی سیاست نہیں ہے- سب سے زیادہ قابل قدر عمل یہ ہوگا کہ بچوں کو ان کے مستقبل کی امید دلائی جائے- اب وقت آگیا ہے کہ اس کی ابتدا کی جائے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ