احمقانہ اورخطرناک اقدامات

18 اپريل 2014
وہ حکومت جو لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکتی، اسے لوگوں سے وفاداری کی امید رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے-
وہ حکومت جو لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکتی، اسے لوگوں سے وفاداری کی امید رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے-
خیبر پختونخوا اسمبلی -- فائل فوٹو
خیبر پختونخوا اسمبلی -- فائل فوٹو

" اگر قانون یہ فرض کرلیتا ہے ----- تو قانون ایک گدھا ہے ---- ایک ایڈیٹ " --- چارلس ڈکنز۔

چارلس ڈکنز اکیلا نہیں تھا جو قانون کو گدھا کہتا تھا---- کئی اور لوگ بھی تھے جو اسی نتیجے پر پہنچے تھے، خصوصاً ایسے ملکوں میں جیسے پاکستان- لیکن قانون کتنا بڑا گدھا ہوسکتا ہے خیبر پختونخوا حکومت نے اس کا مظاہرہ کر دیا ہے-

خیبر پختونخوا کے گورنر نے پچھلی فروری میں ایک قانون نافذ کیا ہے جو دہشت گردی کے شکار کو ایک انوکھے طریقے سے سزا دینے کا قانون ہے- یہ Khyber Pakhtunkhwa Sensitive and Vulnerable Establishment and Places آرڈیننس غیر محفوظ جگہوں کو تین کیٹیگری میں تقسیم کردیتا ہے اور لوگوں کو یہ ہدایات دیتا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے لڑنے کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے کیا طریقہ اپنائیں-

اب آپ جس کیٹیگری میں بھی ہوں، اگر ناکام ہوتے ہیں تو آپ کو ایک سال قید کی سزا بھگتنا ہوگی، یا 40,000 روپیہ جرمانہ یا دونوں- پشاور کے ایک سینیئر وکیل کے مطابق، دہشت گردی کا شکار، اگر وہ زندہ بچ جاتا ہے تو، 40,000 روپیہ جرمانہ اور ایک سال جیل کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہے-

اس قانون کے غیر معمولی طور پر وسیع اطلاق میں، یہ فقرہ "حساس ادارے اور جگہیں" ان تمام جگہوں، "حساس حکومتی/غیرحکومتی ادارے، مذہبی مقامات، تمام این جی اوز کے دفاتر، اور غیر ملکی منصوبے یا دوسرے دفاتر، ادارہ یا جگہ، کیلئے ہے (جنھیں) حکومت وقتاً فوقتاً اعلان کرکے حساس قرار دیتی رہتی ہے"-

جس جگہ کو کوئی ڈسٹرکٹ کمیٹی حساس قرار دے، اور جس کا سربراہ ایک اسسٹنٹ کمشنرہو، کمیٹی اس کے لئے ایک سیکیورٹی پلان تیار کریگی اور اس کے مالکان کا فرض ہوگا کہ وہ اس پلان پرعمل کریں- اگر کوئی کمیٹی کے حکم کے خلاف تین کی جگہ دو سیکیورٹی گارڈز رکھتا ہے یا کلاشنکوف کی جگہ گارڈز کے پاس عام بندوقیں ہیں تو اسے نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہئے-

دہشت گردوں کے ممکنہ ٹارگیٹ کی دوسری کٹیگری "یوٹیلیٹی سروس پرووائڈرز" پر مشتمل ہے "اس میں تمام اشخاص، کمپنی، منتظم اور فرم شامل ہیں جو اس وقت بجلی، گیس، ٹیلیفون، پانی، صفائی اور ڈرینیج، پوسٹل یا دوسری شہری خدمات فراہم کررہی ہوں"-

خیبرپختونخوا کے ہر ڈسٹرکٹ میں یہ تمام سہولتیں بہم پہنچانے والے" اس بات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہونگے کہ ان کی تنصیبات میں کسی طرح کی غیر قانونی مداخلت نہیں کی گئی ہے نہ ہی کوئی مشتبہہ سامان کہیں رکھا گیا ہے- اس مقصد کیلئے، وہ معائنہ ٹیم کو تفصیلات مہیا کرینگے جس میں ایسے لوگ ہونگے جنہیں وہ ان تنصیبات کی باقاعدگی سے دیکھ بھال کرنے کیلئے بہتر سمجھتے ہوں"-

دوسرے لفظوں میں، بجلی، گیس اور ٹیلیفون کی سہولت دینے والے ادارے ٹرانسفارمرز، ٹیلیفون اور بجلی کے پول کا معائنہ باقاعدگی سے کرینگے کہ کہیں بم وغیرہ تو نہیں چھپایا گیا ہے- پانی کی سپلائی کرنے والے زمین کے اوپر جو پائپ وغیرہ ہیں ان کو تو چیک کرلینگے لیکن زیرزمین ڈرینیج والا اسٹاف گندے پانی اور سیوریج کو کیسے چیک کریگا-

تیسری کٹیگری میں "غیر محفوظ ادارے اور جگہیں" شامل ہیں-"ان میں ہسپتال، بینک، منی چینجرز، مالیاتی ادارے، فرم، کمپنیاں، صنعتی یونٹ، تعلیمی ادارے، پبلک پارک، پرائیویٹ کلینک، شادی ہال، پٹرول اورسی این جی اسٹیشن، جوہری کی دکانیں، ہوٹل ( تھری اسٹار اور اس سے اوپر)، تفریحی اور کھیل کے مراکز، پبلک ٹرانسپورٹ ٹرمنل، اسپیشل بازار، کاروباری سڑکیں، دکانیں اور شاپنگ آرکیڈز یا دوسری تمام جگہیں شامل ہیں[جن کا] حکومت وقتاً فوقتاً اعلان کرے-"

تمام غیر محفوظ اداروں اور جگہوں پر لازم ہے کہ وہ "اپنی ہر ممکنہ حفاظت کیلئے سارے انتظامات خود اپنی ذمہ داری پر کریں"

اس کیٹیگری کے بارے میں پہلی سب سے قابل توجہ اور غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس نے تمام کاروباری، عملی اور تفریحی جگہوں کا احاطہ کرلیا ہے- ذاتی گھروں، جھگیوں اور ہوٹل ( تھری اسٹار سے نیچے) بسوں، رکشاؤں اور ٹانگہ والوں کو ابھی تک اس فہرست میں شامل نہیں کیا ہے لیکن اسی وقت تک جب حکومت ان کو شامل کرنے کا ارادہ کرلے-

دوسری غیرمعمولی بات "سیکیورٹی انتظامات" کی تشریح ہے- اس قانون کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے "جسمانی اور تکنیکی دونوں انتظامات، جس میں سی سی ٹی وی کیمرا کی سہولت، بایومیٹرک سسٹم، واک تھرو دروازے، سیکیورٹی الارم اور جدید آلات" اور ان انتطامات کو" مناسب اور ضرورت کے مطابق " بنانے کیلئے دوسرے مزید آلات کی ممکنہ شمولیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا-

قانون کے اس نادرالوجود نمونے کے مصنفین نے گورنر ہاؤس کی سیکیورٹی کا منصوبہ بنا کر کم رتبہ کے لوگوں کو پیش کیا ہے جو بیچارے اتنی استطاعت نہیں رکھتے ہیں کہ بڑے بڑے لوگوں کی طرح سیکیورٹی کیلئے اتنی رقمیں خرچ کرسکیں- وہ لوگ جن میں ایسے سیکیورٹی انتظامات کرنے کی استطاعت نہیں ہے جس کی ان سے امید کی جارہی ہے انہیں جیل اور کاروبار بند کرنے کے درمیان ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا-

وہ عمارات اور وہ جگہیں جو حساس اور غیرمحفوظ بتائی گئی ہیں وہی تو دراصل ایسی جگہیں ہیں جو سالوں سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے لئے خصوصی نظر رکھنے کی جگہیں رہی ہیں- اس قانون نے ان کو اس ذمہ داری سے اگر پورا چھٹکارہ نہیں دلایا ہے تو ان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے فرائض سے تو چھٹی دلاہی دی ہے- حقیقت میں، کے پی کی حکومت کو اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے دست برداری کا الزام تو لگ ہی سکتا ہے-

ان اقدامات کا نتیجہ صرف تباہ کن ہی ہوسکتا ہے -ایک حکومت جو لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکتی ، اسے لوگوں سے وفاداری کی امید رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے- ریاست کی حیثیت ایک عام آدمی جیسی رہ جائیگی اوراس کی رٹ مزید سکڑ جائیگی- دہشت گرد اور ایک عام مجرم کی ہمت بھی بڑھ جائیگی کہ وہ شہری جنہیں ریاست نے ان کے رحم و کرم پر تنہا چھوڑ دیا ہے ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں-

کے پی کی حکومت کو بہترین مشورہ یہ ہے کہ اس آرڈیننس کو فوراً واپس لے اس سے پہلے کہ اس پر بے وقوفی کے الزام کے ساتھ نااہلی کی فرد جرم لگے-

آخری بات: عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ میں زبردست کارکردگی دکھا کربے توجہی کے شکار سڑک چھاپ لڑکوں نے ایسا کام کیا ہے جس پر پاکستان کو فخر ہے- تحسین و آفرین کے کوئی الفاظ ان کے لئے کافی نہیں ہیں اور کوئی عزت ان کیلئے بہت زیادہ نہیں- ان کے اس کمال نے کھیل کے چودھریوں کی تنگ نظر پالیسیوں کو بے نقاب کردیا ہے- ان لڑکوں کا بہترین انعام فٹ بال کے کھیل کو وہ توجہ دینا ہے جس کا وہ حقدار ہے- ورنہ ان سڑک کے کھلاڑیوں کا بھی سڑک کے باکسروں والا حشر ہوگا جو پاکستان کیلئے تمغے جیت کر لاتے تھے، جو بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ۔ مظفر جعفری۔

تبصرے (0) بند ہیں