افراتفری کا دور

06 مئ 2014
حکومت پاکستان نے ایک ایسے شخص کو جو سوات کے قصائی کے نام سے مشہور تھا کیوں زندہ چھوڑا ہوا ہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے-
فائل فوٹو۔۔۔۔۔
حکومت پاکستان نے ایک ایسے شخص کو جو سوات کے قصائی کے نام سے مشہور تھا کیوں زندہ چھوڑا ہوا ہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے- فائل فوٹو۔۔۔۔۔

دہشت گردوں کے حملوں میں معصوم لوگوں کی موت پر اب کوئی افسوس بھی نہیں کرتا- مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب محض شماریات کا ایک ہندسہ ہے- اب جو بات سب سے اہم ہے وہ ہے حکمران طبقہ کا تحفظ؛ اور اگر اسے حاصل کرنے کیلئے ہمیں ان وحشیوں کی اطاعت بھی قبول کرنی پڑے تو یہ ایسی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے-

اسلام آباد کی فروٹ مارکیٹ میں تقریباً تیس غریب مزدوروں اور تاجروں کے قتل عام کے چند گھنٹوں کے اندر ہی حکومت نے کچھ اور طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا- وہ سب کے سب صرف غیرمتحارب افراد تھے، ہمیں یہ بتایا گیا- تو پھر ان کو کس جرم میں قید کیا گیا تھا؟ انہیں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کیلئے کسی عدالت میں کیوں نہیں پیش کیا گیا؟ اس کا کوئی جواب نہیں- مگر اس بات سے، تحریک طالبان کے لیڈر بالکل مطمئن نہیں ہوئے- اگر حکومت یہ دکھلانا چاہتی ہے کہ وہ واقعی پرخلوص ہے تواسے تقریباً 800 دوسرے قیدیوں کو بھی رہا کردینا چاہئے، یہ ان کا مطالبہ تھا- جنگ بندی کی مزید توسیع سے انکار کرتے ہوئے، طالبان نے سیکیورٹی فورسز پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا باضابطہ اعلان کیا-

لیکن اس بات نے بھی ہمارے قائدین کے عزم کو کمزور نہیں کیا اور انہوں نے امن مذاکرات کی اپنی لاحاصل کوششیں جاری رکھیں- نیشنل سیکیورٹی پر کیبنیٹ کمیٹی کی پچھلے ہفتے کی میٹنگ کے بعد ایک اعلامیہ میں یہ اعلان کیا گیا کہ امن کوایک دوسرا موقع دیا جانا چاہئے-

یقینا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اگر جنگ بندی کے بعد پشاورمیں کسی آرمی پٹرول پر کوئی حملہ ہوتا ہے، اور کوئی فوجی مارا جاتا ہے اور کچھ لوگ زخمی ہوجاتے ہیں- حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ بندی پر طالبان نے کبھی پوری طرح عمل بھی نہیں کیا- لیکن اس حکومت میں تشدد کو برداشت کرنے کا بڑا حوصلہ ہے--- طاقت کا استعمال کسی صورت نہیں کرنا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے-

مذاکرات کو شروع ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں، لیکن اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے جس سے کسی قسم کی امن کی کوئی امید پیدا ہو- حکومت دہشت گردوں کو آخر کتنے مواقع دینا چاہتی ہے جبکہ اس کی حاکمیت مکمل طور پر بے اثر ہوتی جارہی ہے-

جہاں حکومت کو اب بھی امید ہے کہ مذاکرات درست راستے پر جا رہے ہیں، ٹی ٹی پی خود آپس کے خونی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے جس میں درجنوں تشدد پسند مارے گئے ہیں- لڑائی لگتا ہے کہ ابھی رکی ہوئی ہے، لیکن اس نے پورے گروہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے- بظاہر ایسا لگتا ہے، کہ ملا فضل اللہ، جو سرحد کی دوسری جانب افغانستان سے معاملات چلا رہے ہیں، اس جھگڑالو گروپ کو متحد نہیں کرسکتے - دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا یہ ایک بہترین موقع تھا لیکن مذاکرات نے فضل اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی ایک نئی زندگی عطا کردی ہے اور یہ سب اس حقیقت کے باوجود کہ وہ سرحد کے اس طرف افغانستان سے پاکستانی فوجوں کے خلاف مہلک ترین حملوں کا ذمہ دار رہا ہے- حکومت پاکستان نے ایک ایسے شخص کو جو سوات کے قصائی کے نام سے مشہور تھا کیوں زندہ چھوڑا ہوا ہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے-

یہ تحریک طالبان کی جیت ہے کہ انہوں نے پاکستانی حکومت کو مذاکرات میں مشغول رکھا ہوا ہے اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کے کئی ساتھیوں کی رہائی بھی حاصل کرلی ہے لیکن خود ابھی تک ایک انچ بھی ان کے حوالے نہیں کیا - تو آخر مذاکرات سے ایسا کیا مل گیا ہے کہ حکومت اسے دوسرا موقع دینے کیلئے اتنی بے تاب ہے؟

یہ تو صاف صاف ٹی ٹی پی ہے جو اپنی شرائط پر بات کررہی ہے- اس کا سب سے بڑا فائدہ اس گروہ کو یہ ہوا ہے کہ انہیں اپنے پرتشدد نظریات کو جائز طورپر بلا خوف پھیلانے کا اور آزادانہ کام کرنے کا جواز مل گیا ہے- مذاکرات کے کھیل نے ان کو طاقت بخشی ہے کہ وہ اپنی لابی کو مضبوط کر کے عوامی دھارے کی سیاست پر اثرانداز ہوں- ملک کی سلامتی کے لئے یہ واقعی ایک بہت خطرناک صورت حال ہے-

جو بات بہت زیادہ پریشانی کی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت دارالحکومت اسلام آباد پر سے بھی اپنی گرفت کھوتی ہوئی نظر آرہی ہے- اسلام آباد میں انتہا پسند مدرسوں کا بے روک ٹوک پھیلاؤ اور غیرقانونی طور پر تعمیر کی ہوئی مساجد نے لگتا ہے جیسے شہر کومحاصرے میں لے لیا ہے-

پچھلے ہفتے، اسلام آباد کی لال مسجد کے بدنام زمانہ مولانا عبد العزیز نے ایک غیر قانونی طور پر قبضہ کی ہوئی لائبریری کو ایک نیا نام دیا- القاعدہ کے مقتول قائد اسامہ بن لادن کا نام- مولانا عبدالعزیز جیل سے رہائی کے کئی سال بعد تک گمنامی کی زندگی گذار کر پھر دوبارہ نمودار ہوئے ہیں- اور ایک بار پھر اپنے زہریلے پیغامات سے لوگوں کو ریاست پر غاصبانہ قبضے کیلئے ورغلا رہے ہیں- مگر قانون کی ایسی خلاف ورزی سے بھی اس انتظامیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے-

ریاست کی کمزورپڑتی ہوئی حاکمیت کبھی اتنی بے بس نہیں ہوئی تھی- ملک میں ایک ناکام ریاست کے سارے آثار بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور تشدد پسندوں کے جرائم کے ساتھ نظر آرہے ہیں- ایک کمزور اور غیر موثر حکومت جس کا ملک کی حدود کے اندر کوئی اختیار باقی نہ رہا ہو، جس میں دارالحکومت بھی شامل ہے-

اس نے ان تشدد پسند تنظیموں کے خلاف طاقت کے جائز استعمال پر بھی جیسے کہ اپنا حق کھودیا ہے، ان ہی کو گلے لگا کرجو ریاست کے وجود کو بھی للکاررہی ہیں- پچھلے چند مہینوں کے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملک تیزی سے افراتفری کا شکار ہوا ہے اور ساتھ ہی ریاست کی عوام کی زندگیوں کے تحفظ کی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کے شرمناک کردار کے شواہد بھی نظر آتے ہیں-

آخری بات: دو ہفتے کے اندر پاکستان کے دو بڑے شہروں کے قلب میں دن کے اجالے میں دو مشہور صحافیوں کو گولی ماری گئی، ان میں سے ایک شدید زخمی ہوا لیکن اس بات کی کوئی امید نہیں ہے کہ مجرم انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں گے- حامد میر اور رضا رومی پر یہ حملے تنقید اور اختلاف کو خاموش کرنے کے کیلئے دھمکیوں اور انتقام کے کلچرکا ثبوت ہیں-

گذشتہ برسوں میں کئی صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے- ان میں سے آج تک کسی ایک واقعہ کو حل نہیں کیا گیا ہے- جس کی وجہ سے ملک میں پریس کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے ماحول کی حوصلہ افزائی ہوئی- اس لئے یہ عجیب بات نہیں ہے، کہ پاکستان آج میڈیا کے لئے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں گنا جاتا ہے-

صحافیوں پر یہ ٹارگیٹڈ حملے، کوئی الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں؛ بلکہ حکومت کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے غیرریاستی عناصر طاقتور ہو گئے ہیں- ان ممتاز شخصیتوں پر حالیہ حملوں نے شاید حکومت کو ان کا نوٹس لینے پر مجبورکیا ہے- لیکن تشدد کے ان بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے میں حکومت کی بے حسی کے رویہ کی وجہ سے تبدیلی کی کوئی امید نہیں ہے-

انگلش میں پڑھیں

  ترجمہ: علی مظفر جعفری ۔

تبصرے (1) بند ہیں

Hazbullah May 06, 2014 10:52am
There are second demonic hidden forces in the country that is the real bosses of the country and the real administrative authority of the state and non-answerable for anyone. There are no low and rules in their books .