ایک نا گزیر تباہی
ایسا لگتا ہے کہ ہم یہ سب پہلے بھی دیکھ چکے ہیں- مملکت نے پھر ایک بھرپور وار کیا ہے- میڈیا اور عوام کے ساتھ مل کر ایک مہم چلائی ہے، وہی جانے پہچانے مذہبی چہرے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کی بڑی بڑی تصویریں اٹھائے ہوئے، یہ نظارہ بُرا شگون لگتا ہے- اس جاسوس ادارے کے سربراہ کی حمایت کیلئے ایسا عوامی مظاہرہ اگر بے مثال نہیں تو کمیاب ضرور ہے-
جمہوری دور کی واپسی کے تقریباً سات سال کے اندر ہی، فوج اپنے پرانے کھیل میں واپس آگئی ہے- یہ واپسی پرانے انداز کی ہے، سویلین اور فوجی ارباب اختیار کے درمیان ساز باز کی، خفیہ اورسازشی۔
اس بار اس اقتدار کی جدوجہد میں کوئی فاتح ہو یا نہ ہو، لیکن ملک کے اندر اس ٹکراؤ کے نتیجے میں سیاسی غیر یقینی کی کیفیت ضرور بڑھیگی-
شروع شروع میں آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ پر الزامات کی بے تحاشہ بوچھاڑ کے جواب میں حکومت کی خاموشی کی وجہ سے فوج کا پلٹ کر جواب دینا ضروری تھا- لیکن پی ایم ایل ن کی حکومت اور جنرلوں کے درمیان تناؤ کا سلسلہ کچھ عرصہ سے چل ہی رہا تھا-
درحقیقت، یہ بات پہلے سے کہی جارہی تھی جب نواز شریف پچھلے سال تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے- کچھ تو پچھلے تجربات جنہیں بھلانا مشکل ہے، نتیجتاً ایک دوسرے کیلئے بدگمانی کے جذبات بھی باقی تھے- لیکن کچھ ایسے اہم پالیسی اختلافات بھی موجود ہیں جنہوں نے تناؤ کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا-
حکومت کئی دنوں تک جیو کے ہاتھوں آئی ایس آئی کی درگت بنتی دیکھتی رہی جس کی وجہ سے میڈیا کے درمیان ایک سول وار شروع ہوگئی اور پورا ملک سیاسی اعتبار سے مختلف ٹکڑوں میں بٹ گیا-
اس بدتر صورت حال کو سدھارنے کیلئے اقدامات دیر میں کئے گئے- اس کی وجہ سے ان مقبول عام خیالات کو بھی ہوا ملی کہ حکومت خود یہ چاہتی تھی کہ یہ صورت حال پیدا ہو-
کچھ وزیروں کے بیانات نے بھی ان شبہات کو تقویت دی کہ حکومت کا اس صورت حال کو بگاڑنے میں پورا ہاتھ ہے- اور وہ خود اس میں ایک پارٹی ہے- فوج بھی آپے سے باہر ہوگئی اور میڈیا کی جنگ میں اپنے مخصوص نعروں کے ساتھ شامل ہوگئی اور اعتراض کرنے والوں کو ریاست دشمن قرار دینا شروع کردیا- اس میں وہ اتنا آگے چلی گئی کہ جیو کی نشریات کو بند کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کردیا بلکہ رپورٹ کے مطابق بعض کینٹونمنٹ علاقوں میں جیو کی نشریات روک بھی دی گئیں- میڈیا کے ذریعے اس پراکسی وار نے ایک بہت پریشان کن صورت حال پیدا کردی-
پچھلے دو ہفتوں کے واقعات نے ملک کے سیاسی ماحول کو تبدیل کردیا ہے- سارے فریق اس ناگوار صورت حال کی وجہ سے بہت بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ہیں- چینلوں کی جنگ نے میڈیا کی آزادی کا پول کھول دیا ہے- لیکن اس اندھا دھند اور بعید از عقل معرکہ آرائی میں حکومت اور فوج دونوں ہی کو نقصان پہنچا ہے-
حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے اپنی طاقت کا بالکل غلط اندازہ لگایا- صورت حال کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنا اور فوج کو دباؤ میں لانے کے جتن الٹا گلے پڑ گئے، اس پورے کھیل میں حکومت سب سے زیادہ نقصان میں رہی ہے- اس بحران کی وجہ سے سیاسی طاقتوں کو دوبارہ صف بندی کا موقع مل گیا-
یہ صرف جماعت الدعویٰ جیسے پرانے جہادی 'اثاثے' نہیں جو اپنے پرانے سرپرست کو بچانے کیلئے نکل آئے ہوں، بلکہ اور بہت ساری قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے بھی فوج کی حمایت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا- یہاں تک کہ سندھ اسمبلی نے بھی سیکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ یک جہتی کی ایک متفقہ قرار داد پاس کرکے ایک بے نظیر مثال قائم کی-
تعجب کی بات نہیں کہ حکومت اپنے آپ کو ایک بند گلی میں پا رہی ہے اور اس کے پاس فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، کم از کم جیو کے مسئلے میں-
تاہم، دونوں کیلئے حالات کو سدھارنا ایک بہت مشکل مرحلہ ہے خصوصاً چند اہم اور متنازعہ پالیسی معاملات کی وجہ سے، یعنی جنرل مشرف کا غداری کا مقدمہ اور حکومت کا دہشت گردوں کی طرف نرم رویہ اب بھی تناؤ کی اصل وجوہات ہیں- سب سے زیادہ پریشان کن بات فوجی قیادت کیلئے فوج کی صفوں میں خصوصاً جونیر افسروں کی سطح پر بڑھتی ہوئی بے چینی ہے-
اسی دباؤ کی بنا پر نئی فوجی قیادت سابق فوجی سربراہ کو تحفظ فراہم کرنے پر مجبور ہوئی- اور اسپیشل ٹریبونل کے سامنے بھی وہ کئی مہینے نہیں گئے- مشرف آخر کار اس وقت حاضر ہوئے جب رپورٹ کے مطابق فیصلے کے بعد ان کو ملک چھوڑنے کی اجازت مل گئی تھی- لیکن ایسا نہیں ہوا- شریف صاحب نے اپنے اذیت رساں کو نہیں جانے دیا-
سب سے زیادہ حساس بات جو تعلقات بہتر ہونے میں حائل ہے وہ فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں حکومت کی گومگو کی کیفیت ہے- طالبان کی ہمدردی میں سینیر وزیروں کے بیانات میدان جنگ میں نوجوان فوجی افسروں کو مشتعل کردیتے ہیں- حکومت کے جنگ کو نہ اپنانے پر اور جنگ میں شہید ہونے والے سپاہیوں اور افسروں کے جنازوں میں شرکت نہ کرنے پر ان کا غصہ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے-
جی ایچ کیو میں آج کل ان خطوں کی بھرمار ہے جو محاذ سے فوجی افسر بھیج رہے ہیں- ان میں حکومت کے بے حسی کے رویے کے خلاف غصہ بھرا ہوا ہے- بہت سارے سپاہی اور افسر میدان جنگ میں مارے جارہے ہیں جبکہ شریف حکومت نام نہاد امن مذاکرات میں ہی الجھی ہوئی ہے-
ایسا نہیں ہے کہ اپنی پالیسیوں اور تانا شاہی رویہ کی بنا پر فوج اور آئی ایس آئی اس سے پہلے تنقید کا نشانہ نہیں بنائے گئے- لیکن جس قسم کی بہتان تراشیوں کی مہم میڈیا کے ایک حصہ کی طرف سے چلائی گئی اس نے سیکیورٹی اور انٹلیجنس ایجنسیون کے کام کرنے کے طریقے پر صحیح قسم کی تنقید سے ان کا دھیان ہٹا دیا- جنگ میں مصروف فوجی افسر اپنے ادارے پر تنقید کے بارے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں-
یقیناً، پاکستان میں اس کی تڑی مڑی تاریخ کی بنا پر سویلین اور فوجی تعلقات کا استوار کرنا آسان کام نہیں ہے- لیکن جمہوریت اس وقت تک صحیح طریقے سے کام نہیں کریگی جب تک یہ دونوں تمام اہم قومی مسئلوں پر یک رائے نہیں ہونگے-
دونوں اداروں کی ذمہ داری برابر ہے- منتخب حکومتوں کی جانب سے صرف بہتر حکمرانی، بہتر صلاحیت اور پالیسی کی صحیح سمت نہ کہ ایک دوسرے سے مقابلے کا رجحان سویلین برتری کی ضمانت بن سکتا ہے-
لیکن دو مرتبہ نکالے ہوئے وزیراعظم نے ایسا لگتا ہے کہ اپنے تجربوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے- اور لگتا ہے کہ تباہی ناگزیر ہے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (1) بند ہیں