بےعمل حکومت

شائع June 2, 2014
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، فائل فوٹو۔۔۔

ایسے وزیراعظم کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو اپنے کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی تعیناتی کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ فیصلہ ایک بار نہیں بلکہ تین بار کالعدم ہو چکا ہے؟

نہیں، یہ مضمون کرکٹ کے اعلی ترین عہدے کے دو مشتاق امیدواروں کے درمیان روایتی کھینچا تانی کے بارے میں نہیں ہے- اگرچہ نجم سیٹھی میرے پرانے دوست ہیں، اس تعیناتی کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے-

میں جس بات پر گفتگو کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ میوزیکل چیئر کا یہ کھیل نوازشریف کے اختیارات کی حد کے بارے میں کیا تاثر دیتا ہے-

ایک سال پہلے جب نوازشریف کو بھاری مینڈیٹ ملا تھا اور انہوں نے تیسری مرتبہ حلف اٹھایا تھا، تو ہم سب نے ان کی خوش نصیبی کا تذکرہ کیا تھا- سب سے پہلے، آصف زرداری کے حریف، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، سال کے آخر میں ریٹائر ہونے والے تھے؛ اور اس کے بعد، نئے وزیراعظم کو فوج کے سربراہ کے طور پر جنرل کیانی کے جانشین کا انتخاب کرنا تھا؛ اور پھر آخر میں، وہ تمام ٹی وی چینل جنہوں نے آصف زرداری کی زندگی عذاب کردی تھی، نوازشریف سے محبت جتانے پر تلے ہوئے تھے-

جیسے، روایتی دانائی کا تقاضا تھا، ان کی حکومت کیلئے اپنے اقتدار اور اختیار کو مستحکم کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں تھی- اور عموما داناؤں کا خیال تھا کہ پہلا کام ہندوستان کے ساتھ فوری طور پر نارمل تعلقات کی جانب قدم بڑھانا ہونا چاہئے تھا، تجارت کے ذریعے-

ہم سب کو امید تھی کہ نوازشریف تعلقات کو دوبارہ وہیں سے شروع کرینگے جہاں 1999 میں مشرف کے کارگل کے غلط اور احمقانہ تجربے کے موقع پر جاکر رک گئے تھے-

لیکن بجائے اس کے کہ حقیقت پسندانہ طرزعمل اپناتے، وہ فیصلہ نہ کرسکنے کی بنا پر کچھ بھی نہ کرپائے- اپنی پارلیمانی اکثریت کے باوجود، ان کی حکومت اہم امور پر بے عمل اور مفلوج محسوس ہوتی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ دوسرے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے ہی لنگڑانے لگے ہیں-

ایک وجہ تو نوازشریف کا مضبوط مرکزی انتظامیہ کا طریق حکومت؛ لیکن زیادہ تر، حقیقی اور فرضی خطرے کی لائین کو پار کرنے سے ان کا خوف- ان کی ہچکچاہٹ اور تذبذب ان کی حکمرانی کے پہلے سال میں بڑھتی ہی گئی، اور اب وہ زرداری کی طرح لگنے لگے ہیں- ایک نکاتی ایجنڈہ پر عمل پیرا ہوکر، جیسے بھی اور جس طرح سے بھی ممکن ہو اپنی مدت حکمرانی پوری کریں-

آپ ان کے ہندوستان کوMost Favoured Nation کا درجہ دینے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے کئی بار دہرائے ہوئے ارادے کے بارے میں غور کریں- اپنی بہترین کوششوں کے باوجود وہ فوج کو اس اہم مسئلے پر اپنا ہم خیال بنانے میں ناکام رہے ہیں-

حالیہ ہندوستانی انتخابات کے موقع پر، ان کی حکومت نے دو ہندوستانی صحافیوں کا ویزہ بغیر کسی مناسب وجہ کے منسوخ کردیا- ہم سب کو اس کا علم ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ وزارت اطلاعات نے جاری کیا تھا، لیکن کون لوگ اس کے ذمہ دار تھے-

اس کوتاہ نظری کے اقدام نے گذشتہ سال 2013ء کے انتخابات کے موقع پر پچھلی نگران حکومت کی ایک کارروائی کی یاد دلا دی --- نیویارک ٹائمزکے بیورو چیف ڈیکلان والش کو مبینہ طور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایماء پر ملک سے باہر بھیج دیا گیا تھا-

ایک بہت بڑا مسئلہ جس پر وزیراعظم اپنے فیصلے پر اَڑ گئے وہ طالبان سے مذاکرات کا مسئلہ تھا- یہاں، جنرلوں کا سامنا کرنے کے لئے سیاسی طاقتوں کے درمیان کافی ہم آہنگی ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ جنرلوں کو کارروائی کرنے سے پہلے عوامی حمایت چاہئے ہوگی- لیکن جیسا کہ مذاکرات بے نتیجہ ہورہے ہیں، اور طالبان کی گرفت قبائلی علاقے پر بڑھ رہی ہے، سیاسی اور فوجی قائدین کے درمیان تناؤ کی فضا بھی گمبھیر ہورہی ہے-

حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سال انتخابات میں فتح کے بعد اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی بجائے، نوازشریف نے فوج، میڈیا اور ملاؤں کی قوت مزاحمت میں اضافہ ہونے دیا ہے- ان کے سامنے کمزوری اور فیصلہ نہ لینے کی کمزوری کا مظاہرہ کرکے انہوں نے اپنے مخالفین کو متحد ہونے کی ہمت عطا کی ہے- ایسی صورت میں لازمی طور پر، ان کے اکیلے مد مقابل، عمران خان نے لگتا ہے اس گٹھ جوڑ کا ساتھ دینے کا ارادہ کر لیا ہے-

اور اگرچہ، ہچکچاہٹ اور فیصلہ سازی کے درمیان، جب کہ اس علاقے میں اہم واقعات جنم لے رہے ہیں جو سنجیدہ طرز عمل اور توجہ چاہتے ہیں، اور یہ دونوں فی الوقت ناپید ہیں-

ہندوستان میں ایک یادگار انتخاب کا انعقاد ہوا ہے، جس نے سیاسی منظرنامے کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے- افغانستان ایک اہم انتخاب کے بیچ میں ہے اور مغربی افواج سال کے آخر میں واپس جانے کیلئے تیار کھڑی ہیں-

ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے، ہمارے مختلف اداروں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، اور ان کو میڈیا کے ذریعے عوامی حمایت کی ضرورت ہے- لیکن موجودہ کنفیوژن اور انحراف کے حالات میں، اتحاد کا پیدا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے- تقسیم پہلے ہی اتنی زیادہ ہے کہ دباؤ میں مزید اضافہ ہی ہوسکتا ہے-

ہر طرف سے محصور اور بے آسرا ہوکر، نوازشریف لگتا ہے کہ کسی محاذ پر کسی طرح کی پیش قدمی کرنے کے قابل نہیں ہیں- اور ان کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی واحد کامیابی بھی فیصلہ کن قدم ہونے کی بجائے ایک غیر فعال قدم ہے- اس موجودہ میڈیا کی جنگ میں ان کی حیثیت ایک ایسے عینی شاہد کی ہے جو گونگا ہے-

ابھی تو، ان کو اپنے کسی مخالف سے کوئی خطرہ نہیں ہے- لیکن قدرت کو خلا پسند نہیں ہے، اور اگر وہ اپنے خول سے باہر نہیں نکلتے ہیں، تو انہیں شاید اسی چیز کا سامنا کرنا پڑے جس کا ان کو سب سے زیادہ ڈر ہے:

نوازشریف مخالف طاقتوں کا ایک طاقتور اتحاد جو سب کے سب ان کو اقتدار سے باہر نکالنے پر تلے ہوں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری ۔

عرفان حسین

لکھاری کا ای میل ایڈریس irfan.husain@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 جولائی 2025
کارٹون : 5 جولائی 2025