اندر کا دشمن

دہشت گردوں کے ہمدرد حکومت، سیاسی جماعتوں، بیوروکریسی حتیٰ کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں بھی موجود ہیں-
دہشت گردوں کے ہمدرد حکومت، سیاسی جماعتوں، بیوروکریسی حتیٰ کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں بھی موجود ہیں-

بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے رکن ہینڈری مسیح جنھیں گزشتہ ہفتہ گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، ان کا قاتل بلوچ لیویز کا اہلکار غلام محی الدین ان قوتوں کا نمائندہ ہے جو ایک دوسرے سے خوفناک جنگ میں دست و گریباں ہیں اور اس کا جو نتیجہ برآمد ہوگا وہ مستقبل کے پاکستان کی تصویر ہوگا-

آئیے پہلے ہم ان کرداروں کا جائزہ لیں؛

ہینڈری مسیح ایک سیکیولر ڈیموکریٹ اور سرگرم کارکن تھے- مسلمانوں کے درمیان وہ ایک عیسائی تھے اور انھوں نے اپنی قسمت بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ کرلی تھی، جس کا سیکیولر، نیشنلسٹ کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور اس کے صف اول کے رہنما بن گئے-

اپنے ملک کے عوام، خاص طور پر مسیحی برادری کی سماجی-معاشی ترقی کے لئے ان کا جذبہ انھیں لاہور لے گیا اور وہ ایک سول سوسائٹی کی تنظیم (ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ) سے جڑ گئے جہاں مختلف کمیونٹی کے گروپوں کو قیادت کی تربیت دیجاتی تھی-

وطن واپس آنے کے بعد انھوں نے نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی نہ کہ کسی چھوٹی موٹی تنظیم سے اور اتنی مقبولیت حاصل کرلی کہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے-

چنانچہ ہینڈری ان قوتوں کے ساتھ ہوگئے جو پاکستان کو ایک سیکیولر، جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے جس میں تمام شہریوں کو بلا لحاظ انکے اعتقادات یا رہائش کے نہ صرف مساوی حقوق حاصل ہوں بلکہ وہ انھیں حاصل کرنے کی جدوجہد میں بھی حصہ لیں-

ان تمام لوگوں کے لئے جو عقل اور انسانی تاریخ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں صرف یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر پاکستان ایک جدید، تہذیب یافتہ اور ذمہ دار ریاست بن سکتا ہے-

اس کے برخلاف غلام محی الدین ہے جو ان لوگوں کی حمایت کرتا ہے جو سیکیولرازم، جمہوریت اور انسانی حقوق کو مسترد کرتے ہیں- وہ مذہبی اقلیتوں اور چھوٹے فرقوں کے علاوہ عورتوں کو بھی اس سے زیادہ بے معنی مراعات دینا نہیں چاہتے جو دوسرے درجے کے شہریوں کو حاصل ہیں- یہ قوتیں ریاست اور عوام دونوں ہی کے خلاف تشدد کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا اور اس کے بعد ساری آبادی پر ایک ظالمانہ حکومت مسلط کرنا چاہتی ہیں جو تنگ نظری پر مبنی ہو-

ممکن ہے کہ جن لوگوں کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی جائے، جن کی کارکردگی پر ہمیں اعتماد نہ ہو اور وہ مذہبی/فرقہ واریت کے تعصب سے آزاد نہ ہوں اس جرم کو کسی چھوٹے موٹے جھگڑے یا خاص قبائلی ذہنیت کا نتیجہ قرار دینگے- لیکن یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عدم برداشت اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہو اور پاکستان اب ایسا ہی معاشرہ بن چکا ہے، عقائد کسی جھگڑے کی نوعیت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور پر جب ایک فریق کا تعلق کسی اقلیتی مذہب/فرقے سے ہو-

یہ احساس کہ مخالف فریق کا تعلق محروم طبقے سے ہے، مجرم کو نڈر بنادیتا ہے اور وہ اپنے فعل کے تعلق سے تمام قانونی اور اخلاقی پابندیوں کو مسترد کرسکتا ہے- مذہبی عدم برداشت طبقاتی یا نسلی تفریق کے مقابلے میں قتل کو بڑی حد تک جائز قرار دیتی ہے- اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ غلام محی الدین شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ سمجھتا ہو کہ اس کے شکار کا قتل واجب ہے کیونکہ وہ کافر ہے-

اس معاملے میں ہمیں دو پہلووں پر غور کرنے کی ضرورت ہے؛

پہلا مسئلہ بلوچ معاشرے کو فرقہ واریت کے سانچے میں ڈھالنے کا ہے- چند سال پہلے تک بلوچستان کو اسکی مذہبی برداشت، نسلی اور ثقافتی رنگارنگی کی وجہ سے احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا- مذہبی-سیاسی جماعتوں کا ایجنڈہ جمہوری/نیشنلسٹ جماعتوں سے کسی قدر مختلف ہوا کرتا تھا لیکن انتخابات میں انھیں سیٹیں بڑی حد تک ان کے تعلیمی اداروں کی بنیاد پر حاصل ہوتی تھیں-

ضیاء الحق کے دور میں انھوں نے سیاست کے لئے مذہب کا بڑی حد تک استحصال کیا اور مذہبی-سیاسی تحریکیں شروع کیں، مثلاً، ذکریوں کے خلاف- تاہم، اب وہ کھلے عام ریاست کے خلاف عسکریت پسندوں کی حمایت کررہے ہیں-

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ، مذہبی اداروں کی بڑی تعداد جو غیر ملکی پیسے سے بلوچستان بھر میں، خاص طور پر مکران کے ساحل کے ساتھ ساتھ تعمیر کی گئی ہے نئی نسل کی سوچ کو بیحد متاثر کررہی ہے اور اب مذہبی رواداری کی جگہ خالص فرقہ واریت نے لے لی ہے-

نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پنجگور میں لڑکیوں کی تعلیم کو سخت نقصان پہنچا ہے- غیر مسلم شہریوں کی جانب عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے اور خبریں آرہی ہیں کہ بلوچستان کے نوجوان پنجابی دہشت گرد تنظیموں سے تشدد کے ذریعے بھتہ خوری، اغوا اور مذہب کی جبری تبدیلی کے طریقے سیکھ رہے ہیں-

بلوچستان میں مذہبیت کا یہ پھیلاؤ پورے ملک کے لئے برا شگون ہے- کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ پر حملے، زائرین کے کاروانوں پر حملے (کم از کم ان لوگوں پر جو اتنے غریب ہیں کہ وزیر داخلہ کے مشورہ کے مطابق ہوائی سفر نہیں کرسکتے) نیز بتدریج کم ہوتی ہوئی ہندو کمیونٹی پر حملوں میں اضافہ ہوسکتا ہے-

حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچستان میں مذہبی کٹرپسندی کی لہر ریاست کے لئے قوم پرست سرکشی کے مقابلے میں زیادہ بڑا خطرہ ہے- اگر اسلام آباد وفاق کو بچانا چاہتا ہے تو اس کو چاہیئے کہ عدم برداشت کی جانب بلوچستان کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکے-

دوسرا مسئلہ پاکستانی معاشرے اور اداروں میں انتہاپسندوں کا بڑھتا ہوا عمل دخل ہے- سبھی جانتے ہیں کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے حامی پھیلے ہوئے ہیں جنھیں وہ اپنا 'اثاثہ' کہتے ہیں- جن لوگوں نے کراچی ایر پورٹ پر حملہ کیا تھا ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دو دن ایسے گھروں میں گزارے تھے جو ان کے ٹارگٹ کے قریب تھے- ان کے مقامی دوستوں نے انھیں ایرپورٹ سیکیورٹی فورس کے یونیفارم، جوتے، کھانے پینے کی چیزیں اور ادویات وغیرہ حاصل کرنے میں مدد دی تھی-

دہشت گردوں کے ہمدرد حکومت، سیاسی جماعتوں، بیوروکریسی حتیٰ کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں بھی موجود ہیں-

یہ حقیقت کہ دہشت گردوں نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بھی زہریلا کردیا ہے، خاص طور پر سنگین معاملہ ہے- ایسی مثالیں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں کہ پولیس والوں/گارڈز نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا ہے جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ مذہب کے خلاف جرم میں ملوث تھے- یہ اندر کا دشمن ہی ہے جو پاکستان کو دہشت گردوں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے-

یہ معاملہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد زیادہ سنگین ہوگیا ہے- دہشت گردوں کی وارننگ کے مقابلے میں حکومت کا جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ 'ریڈ الرٹ' کا حکم دیتی ہے اور اہم مراکز پر غیر معمولی سیکیورٹی کے اقدامات کرتی ہے- ماضی میں اس طرح کے اقدامات اکثر ناکام ہوچکے ہیں اور امید نہیں کہ اب کامیاب ہونگے-

حکومت کی سوچ میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ مذہبی عسکریت پسندوں کے خطرے کو محض لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھتی ہے- اپنے ظاہرہ-مذہبی بیانات سے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی حکمت عملی کے جواب میں بہت کم کچھ کیا گیا ہے- تکفیر کے نظریے کا جسکے تحت مذہبی علماء کسی کو بھی مرتد یا کافر قرار دیسکتے ہیں اور نتیجتاً کوئی بھی مسلمان انھیں ذبح کرسکتا ہے، تجزیہ نہیں کیا گیا-

غیر مسلموں کو ہلاک کرنے کا جو لائسنس عسکریت پسندوں کو دیا گیا ہے اسے ختم کرنا ضروری ہے- یہ بھی ضروری ہے کہ مذہبی عمل کو انتہاپسندوں کے غلبہ سے چھٹکارا دلایا جائے- یہ اس وقت تک ممکن نہیں جبتک کہ ہماری حکمراں قیادت اپنے دلوں سے دہشت گردوں کے دوستوں کو نکال باہر نہ کریں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں