دو اور دو چار

16 جولائ 2014
جب سے پنجاب میں اسکی بساط لپیٹی گئی ہے، پی ایم ایل-ق چوہدریوں کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے
جب سے پنجاب میں اسکی بساط لپیٹی گئی ہے، پی ایم ایل-ق چوہدریوں کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے

قسمت میں یہ ملاقات ہونا لکھی تھی، لیکن تب بھی یہ اتفاق تھا کہ جب شاہ محمود قریشی بدھ کو ان کے گھر پہنچے تو چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی اپنے گھر میں موجود تھے- آجکل ان دونوں چچا زاد بھائیوں کو علامہ طاہر القادری کے ماڈل ٹاون کی رہائش گاہ میں زیادہ سکون ملتا ہے جہاں وہ تجربہ کار فارورڈنگ ایجنٹس کی طرح سامان کے حجم اور وزن کا جوش و خروش کے ساتھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں- ڈاکٹر قادری ان کی تازہ ترین منزل ہیں جہاں نمبروں کی تلاش انھیں لے گئی ہے اور وہ اس انقلاب کی دستاویز پر دستخط کرچکے ہیں جسکی آمد آمد کی خبریں سنائی جارہی ہیں-

اگر انھیں عوامی تحریک کا انتظار تھا، تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شاہ محمود قریشی سے ملاقات سے انھیں جو تقویت ملی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑے واقعہ کے انتظار میں ہیں-

گجرات کے ان دونوں جنٹلمین بھائیوں کے پاس ایسی قیادت ہے جسے وہ کسی کو بھی فراہم کرنے کے لئے بے چین ہیں جس کے پاس ویژن اور اس کے ساتھ نمبر بھی موجود ہوں- مشرف کے دور کے بعد ان کی پہلی گاہک پی پی پی تھی جسکی قیادت چوہدریوں کو اپنے اتحادیوں میں شامل کرنے کی اس قدر خواہشمند تھی کہ اس کی وجہ سے گجرات اور پنجاب بھر میں خود ان کی صفوں میں دڑاڑیں پڑ گئیں-

شروع ہی سے نظر آرہا تھا کہ یہ اتحاد ناکام ہوجائے گا، اور اگرچہ چوہدری شجاعت اپنے گزشتہ اتحاد پر افسوس کا اتنا برملا اظہار نہیں کررہے تھے، لیکن انھوں نے صاف صاف اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پی پی پی کے ساتھ ان کا انتخابی اتحاد بہت بڑی غلطی تھی-

تاہم، انھوں نے گزشتہ انتخابات سے پہلے پی پی پی اور پی ایم ایل-ق کے حکومت کے اندر اتحاد پر اتنی کڑی تنقید نہیں کی تھی، لیکن 2013 کے انتخابی نتائج کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ق-لیگ حکومت کے ساتھ اتحاد سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکی جس کی اسے خواہش تھی-

2013 کے انتخابات نے ایک راز فاش کردیا اور طلسمی کہانی ختم ہوگئی----اس پارٹی کی کہانی جسکی قومی سیاست میں ایک اہمیت تھی اگرچہ سب لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ پارٹی اپنی افادیت کھوچکی ہے-

جنرل پرویز مشرف کی منظرنامہ سے رخصتی کے بعد،جنھوں نے پی ایم ایل-ق کی بنیاد ڈالی تھی، عام خیال یہ تھا کہ پارٹی تیزی سے منتشر ہوجائیگی، لیکن ایسا نہیں ہوا تو اس کارنامے کا سہرا چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت حسین کی عیارانہ قیادت کے سر باندھا گیا، اسکے علاوہ اسکی وجہ تذبذب کا شکار پی پی پی بھی تھی جو پارلیمنٹ میں مطلوبہ حمایت حاصل کرنے کے لئے بے چین تھی- بدقسمتی سے گجرات کے دونوں بھائی 1970 کے اواخر سے پنجاب کی سیاست کا لازمی حصہ تھے لیکن ان کا جادو 2013 کے انتخابات میں نہ چل سکا-

دونوں چوہدریوں کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ خود کو دوبارہ سامنے لائیں، اور کچھ عرصہ کے لئے انھوں نے یہ تاثر دینا شروع کیا کہ وہ اپنے خاندان کے ایک نئے چہرے پر اپنے اعتماد کا اظہار کرینگے- مختصر سے عرصہ کے لئے یہ سمجھا جانے لگا کہ نو عمر مونس کو اجازت دی جائے گی کہ وہ وہ چوہدریوں کی دعاوں کے ساتھ اور پرویز الہی اور شجاعت حسین کی سرپرستی میں قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں-

مونس اس پر پورا نہ اتر سکے، لیکن یہ سمجھا جارہا تھا کہ وہ چودھریوں کے امیج کو بنانے میں اہم رول ادا کرینگے جسکی شدید ضرورت تھی اور اس کو تازہ کرنے میں پانی کا چھینٹا ثابت ہونگے- لیکن اس حکمت عملی کو جلد ہیختم کر دیا گیا اور اسی پرانی طرز کی سیاست کو جاری رکھا گیا-

بعض لوگ پی ایم ایل-ق کے پلیٹ فارم سے کی جانیوالی اس پرانے طرز کی سیاست کو بچانے کی کوشش کہینگے جو برسوں سے جاری نظام کی زندگی کا مرکز رہی ہے- اب جبکہ پی ایم ایل-ق اس نظام کوبدلنے کا دعویٰ کررہی ہے، صاف ظاہر ہے کہ وہ اس رتبہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے جو اس نظام کی طویل العمری کی ضمانت تھا----یہاں ظاہر ہے کہ چوہدریوں کی کتاب میں اس سے مراد دو نظام یا ادارے ہیں جن میں سے ایک کو تو ختم کرنا ضروری ہے اور دوسرے کی نشو و نما کرنا اور اس کو پروان چڑھانا ضروری ہے-

ان میں سے ان کا انتخاب کیا ہوگا وہ تو ظاہر ہے لیکن ان برسوں کے دوران راستہ یقینی طور پر مشکل ہوگیا ہے- جب سے گزشتہ انتخابات میں پنجاب میں اسکی بساط لپیٹ دی گئی ہے پی ایم ایل-ق چوہدریوں کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے- پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جو پی ایم ایل-ن کو چیلنج کرسکتی ہے، اور ایک ایسی پارٹی کی حیثیت سے جو اپنی قدرو قیمت کو خوب اچھی طرح جانتی ہے اور مفت خوروں کو اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتی، پی ایم ایل-ق کی مثبت چالوں کا جواب دینے میں وقت لے رہی ہے-

تاہم، ان مبینہ الزامات کے جواب میں کہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل-ق فطری اتحادی ہیں، عمران خان محتاط ہو کر اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ چوہدریوں نے اس نظام کی کیا خدمات انجام دی ہیں جسے وہ جلدبازی سے کام لیتے ہوئے الٹ دینا چاہتے ہیں- بدھ کے دن پی ٹی آئی کے وائس پریذیڈنٹ شاہ محمود قریشی کی ملاقات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ عمران اب اس منتظر اتحادی کے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہیں جس کے بدلے میں وہ پی ایم ایل-ق کے ان دونوں لیڈروں سے وعدہ کرنے کے لئے تیار ہیں کہ وہ درمیانہ مدت میں واقعی کوئی نہ کوئی قدم اٹھائنگے جس کا انتظار ہورہا ہے-

اس بات کے پیش نظر کہ پی ٹی آئی ابھی تک پی ایم ایل-ق کو شامل کرنے سے احتراز کرتی رہی ہے، یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ عمران خان میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف سنجیدگی سے براہ راست ٹکرانا چاہتے ہیں- ہوسکتا ہے وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کی دھمکی پر بھی عمل کریں اور حکومت کو غیر مستحکم کردیں- اس کھیل میں دوسرے کھلاڑی بھی سرگرم نظر آرہے ہیں---پی پی پی اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ- اس سے اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ اسلام آباد کی جانب پی ٹی آئی کے مارچ اور دیگر اقدامات کو غیر سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے-

اس کا مطلب یہ ہے کہ چوہدریوں کوواقعی موقع مل رہا ہے- ان کے پاس اتنے حمایتی نہیں ہیں جتنے کے طاہر القادری کے پاس ہیں اور نہ ہی عمران خان کی پی ٹی آئی کی طرح پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ہے- انھیں خود کو ایسے رہنماوں کی شکل میں پیش کرنا ہوگا اور اس بات پر یقین کرنا ہوگا کہ پارٹیوں کو اپنی جانب کھینچنے کے لئے وہ جو نقشہ دکھا رہے ہیں، جو اگرچہ دیکھنے میں بڑا دکھائی دیتا ہے، اسی جانی پہچانی پرانی منزل کی طرف لے جائے گا-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (1) بند ہیں

آشیان علی Jul 16, 2014 01:29pm
ایک بات تو سب کی سمجھ میں آ گئی سیاست دانوں کی دوستی اور مخالفت کا ایک ہی معیار ہے چڑحتے سورج کی پوجا. بہت ذیادہ ٹائم تو نہیں گزرا جب چوہدریوں کے ڈیرے پر موئدبانہ حاضر ہونے والے سیاست دانوں کا ہجوم ہوتا تھا . یعنی ہمارے سیست دانوں میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہے.