احتجاج کے معاشی اثرات
احتجاجات اور مارچوں کے اس موسم میں مناسب ہوگا کہ جمہوری احتجاج کے معاشی اثرات کا جائزہ لیا جائے- کیونکہ بہرحال پاکستان کی چیختی چلاتی جمہوریت میں --- اپنی تمام شکلوں میں --- احتجاج کا سلسلہ چلتا رہے گا، اکثر اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوجاَئے گا اور امکانات یہ بھی ہیں کہ اسکے نتیجے میں تعطل بھی پیدا ہوگا-
اقتدار پر قابض لوگ ہمیشہ ہمیں یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ احتجاج سے عوام معاشی طور پر متاثر ہوتے ہیں، چنانچہ جو لوگ ان کی مخالفت میں احتجاج کرتے ہیں اسکی قیمت عوام کو دینی پڑتی ہے- اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ؟ اور یہ بھی کہ کیا ہم ان معاشی اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو مختلف قسم کے احتجاج کا نتیجہ ہوسکتے ہیں؟
احتجاج کی عام ترین شکل، خاص طور پر کراچی میں، غالباً ہڑتال ہے جو اکثر و بیشتر سندھ اور بلوچستان کے چھوٹے شہروں میں بھی کی جاتی ہے جسکے نتیجے میں شہر دن بھر کے لئے( یا زیادہ تر آدھے دن کے لئے) مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے- اور اس سے پیداواری عمل اور خدمات کا بڑا حصہ متاثر ہوتا ہے، اس لئے اس سے شدید معاشی نقصان پہنچتا ہے، خاص طور پر متعلقہ چھوٹے بڑے شہروں میں رہنے والوں کو-
کراچی میں ہڑتال ہوتی ہے تو اس کا اثر ملک کے دیگر حصوں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ ایک تو اس لئے کہ یہ بندرگاہ ہے اور دوسرے یہ کہ یہ ملک کے مالیاتی نظام کا مرکز ہے اور اگرچہ کہ اب یہاں سے کافی تعداد میں صنعتیں ہٹالی گئی ہیں لیکن اب بھی یہاں ملک کی صنعتوں کا بڑا حصہ موجود ہے-
معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کی چند اور مثالیں اچانک رونما ہونیوالے (یا اچانک منصوبے کے تحت کئے جانے) عوامی ہجوم کے احتجاج ہیں مثلاً، ناموس رسالت کی جانب سے ہونیوالے احتجاج جو کئی مرتبہ کئے گئے یا بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہونے والا فساد-ان اشتعال انگیزیوں کے نتیجے میں پر تشدد واقعات بھی ہوئے جن کے نتیجے میں نہ صرف چھوٹے اور بڑے شہر بند ہوئے بلکہ سرکاری اور نجی املاک کو بھی تباہ و برباد کیا گیا-
مارچ، (لانگ مارچ یا شارٹ مارچ) اور دھرنوں کی نوعیت بالکل مختلف ہے- اصولاً، دھرنا یا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہونیوالا مارچ ضروری نہیں کہ معیشت کو شدید نقصان پہنچائے- اگر دھرنا مقررہ جگہ پر دیا جائے یا مارچ مقررہ راستہ پر کیا جائے تو اس سے نقصان براہ راست ان لوگوں کے اوقات کار کا ہوگا جو ان دھرنوں اور مارچوں میں حصہ لینگے-
پاکستان میں لیبر مارکیٹ کے رجحانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لیبر فورس کا دو تہائی حصہ بے ضابطہ شعبہ میں کام کرتا ہے- پاکستان میں اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ بے ضابطہ معیشت میں کام کرنے والے مزدوروں ( اور باضابطہ معیشت میں کام کرنے والوں کی کافی تعداد) کو پورا کام نہیں ملتا یعنی ان مزدوروں کی پیداواری صلاحیت مکمل طور پر استعمال نہیں ہوتی- چنانچہ، پیداوار کا نقصان تو ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا کہ کسی ترقی یافتہ ملک میں کام کے اوقات کا-
اسکے علاوہ جس علاقے میں اور اسکے اطراف و اکناف کے علاقوں میں جہاں دھرنا ہوتا ہے اور جو تجارتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہیں، وہاں کے تاجروں کا نقصان ہوگا، لیکن دیگر وسیع تر علاقوں میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں جاری رہیں گی- چونکہ دھرنے عام طور پر پریس کلب کے قریب یا اسمبلی کی عمارتوں کے قریب کئے جاتے ہیں ان سے لوگوں کو مشکلات ہوتی ہیں لیکں معاشی نقصان اتنا نہیں ہوتا۔
ایک اور سچ یہ بھی ہے کہ، احتجاج کے طور پر کئے جانیوالے دھرنوں اور مارچ کے نتیجے میں، معیشت کو فائدہ بھی ہوتا ہے- اس کا انحصار ان میں حصہ لینے والوں کی تعداد پر ہے، کیونکہ ٹرانسپورٹرز، کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنیوالوں ہوٹلوں اشاعت گھروں، جھنڈے بنانے والوں اور تفریح فراہم کرنیوالوں کو کام کے مواقع ملتے ہیں-
اوسط طلب میں اضافہ کا مثبت اثر ہوتا ہے اگرچہ یہ محدود ہوتا ہے، خاص طور پر ایک ایسی معیشت پر جو مستقل طور پر اپنی صلاحیت سے کم پیدا کرنے کے مسئلہ سے دوچار ہے-
اسکے علاوہ اگر احتجاج کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ہو تو وسائل بڑے سیاسی لیڈروں سے "ورکر" کو منتقل ہوجاتے ہیں کیونکہ بڑے لیڈر ان کے ذمے ان میں حصہ لینے والوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لیجانے، کھلانے پلانے اور انھیں اکٹھا کرنے کا فرض سونپ دیتے ہیں- چنانچہ یہ احتجاجی سرگرمیاں بھی کم و بیش اسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کی طرح ہوتی ہیں جیسی کہ انتخابی مہموں کے دوران-
جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہورہا ہے،'آزادی' اور 'انقلاب' مارچ اور ان کے دھرنے عام احتجاجی نوعیت کے نہیں ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے اور ان کے اہم معاشی اثرات رونما ہوسکتے ہیں-
پنجاب کا صوبہ اور اسلام آباد تو عملاً بند ہوچکے ہیں- کنٹینروں سے کھڑی کیجانیوالی رکاوٹوں کے نتیجے میں ان علاقوں کے بڑے حصہ میں ٹرانسپورٹ نہیں چل سکتی- نہ صرف لوگوں کے لئے آنا جانا مشکل ہوگیا ہے بلکہ سامان کی نقل و حرکت بھی رک گئی ہے-
کراچی کو پہلے ہی غذائی اشیاء کی قلت کا سامنا ہے، برآمدات کی تاریخوں کی خلاف ورزی ہورہی ہے،کراچی کی فیکٹریوں میں شہر کے باہر سے آنیوالے خام مال کی قلت ہوگئی ہے نیز بندرگاہ پر ضروری سامان رکا پڑا ہے اور کراچی اورسندھ کے دیگر علاقوں سے صنعتی اور زرعی مال پنجاب اور کے پی نہیں جاسکتا- یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ عوام کو جو معاشی قیمت چکانی پڑ رہی ہے اسکی وجہ بجائے خود احتجاجی مارچ یا دھرنے نہیں ہیں بلکہ اسلام آباد اور لاہور کی حکومتوں کا بھونڈا پن اورسخت سیاسی رد عمل ہے-
احتجاج کرنا ایک جمہوری حق ہے اور شہریوں اور ان کے نمائندوں کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا- نہ ہی پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکومت کے مخالفین احتجاج کرتے ہیں- ترقی یافتہ ممالک میں ان کے لئے وقت اور جگہ کا تعین ہوتا ہے اور وہاں پولیس کا معیار بھی اعلیٰ ہے جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے-
جیسا کہ ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے----اور اسکی وجہ بھی ہے-----جبتک کہ احتجاج سے انتشار نہ پھیلے،اس میں زیادہ تعداد میں لوگ شرکت نہ کریں اور یہ کئی کئی دنوں تک جاری نہ رہے اس پر حکومت وقت اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کرتی-
مختصر مدت میں، معیشت کو پہنچنے والے نقصان کو محدود کرنے کی ذمہ داری بڑی حد تک حکومت وقت کی حساسیت اور اسکی سیاسی سوجھ بوجھ پر ہے-درمیانی اور طویل مدت میں،اگر جمہوری اقدار اپنے قدم جمالیں تو ریاست اور حکومت وقت نیز ان کی مخالف قوتیں اپنے جمہوری حقوق اور فرائض کو اس طرح استعمال کرینگی کہ اس سے کم سے کم معاشی اور سماجی نقصان پہنچے-
*لکھاری اسد سعید ماہر اقتصادیات ہیں، اور کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ کراچی کے ڈائریکٹر ہیں. *
ترجمہ: سیدہ صالحہ












لائیو ٹی وی