وبائی بیماریاں اور حکومتی غیر سنجیدگی

14 ستمبر 2014
سفری سہولیات میں اضافے کے باعث لوگوں کی نقل و حرکت بڑھی، جس کی وجہ سے بیماریوں کو علاقوں تک محدود کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے — خاکہ ڈرک براکمین
سفری سہولیات میں اضافے کے باعث لوگوں کی نقل و حرکت بڑھی، جس کی وجہ سے بیماریوں کو علاقوں تک محدود کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے — خاکہ ڈرک براکمین

بیماریاں سرحدوں میں قید نہیں کی جا سکتیں۔ وہ ایک ملک سے شروع ہوتی ہیں، اور پھر سرحدوں کے پار سینکڑوں ہزاروں لوگوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ 14 ویں صدی میں وسطی اور شمالی یورپ کے وسیع علاقوں میں طاعون نے تباہی پھیلائی، اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس تعداد میں اضافہ وبا والے علاقوں کے لوگوں اور جانوروں کا دوسری علاقوں میں جانے سے ہوا۔

بیسویں صدی کی ابتداء میں دنیا بھر میں انفلوئنزا نے لاکھوں لوگوں کی جانیں لیں، تو بیماریوں کا عالمی سطح پر پھیلنا عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث بنا۔ سفری سہولیات میں اضافے کے باعث لوگوں کی نقل و حرکت بڑھی، جس کی وجہ سے بیماریوں کو علاقوں تک محدود کرنا ایک مشکل کام بن گیا۔ 1969 میں یرقان، طاعون، اور کالرا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز (IHR) کا نفاز کیا گیا۔

ان ریگولیشنز نے ممالک کو اس بات کا پابند کیا، کہ وہ داخلی طور پر وبائی بیماریوں کا پتا لگانے، مانیٹر کرنے، انھیں پھیلنے سے روکنے، اور عالمی برادری کو آگاہ کرنے کے لیے پالیسیاں وضع کریں، تاکہ عالمی سطح پر ان کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کیے جا سکیں۔ دنیا کے گلوبل ولیج بننے، اور بین الاقوامی سفر کے بڑھتی ہوئی صنعت بن جانے سے وبائی بیماریوں کا پھیلنا ایک بار بار رونما ہونے والا واقعہ بن چکا ہے۔

2002 میں چین سے شروع ہونے والے سارس (Severe Acute Respiratory Syndrome) نے پانچ بر اعظموں کے 26 ممالک کو متاثر کیا۔ اس کے نتیجے انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کو انتہائی خطرناک وبائی امراض کے جنم لینے، اور ان کے پھیلنے سے روکنے کے لیے اپ ڈیٹ کیا جانا ضروری تھا۔ 2005 میں نئی انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز (IHR 2005) بنائی گئیں، جن میں بیماریوں کی ایک لمبی فہرست شامل کی گئی، اور WHO کے ممبر تمام ممالک کو ان کے نفاذ کے لیے پابند کیا گیا۔

انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز 2005، 2007 میں نافذ العمل ہوئیں۔ لیکن تب سے لے کر اب تک IHR 2005 کے مکمل نفاز کے لیے کوششیں کچھ اتنی خاص نہیں رہی ہیں۔ یہ بات کھل کر تب سامنے آئی، جب پاکستان H1N1 انفلوئنزا کی ملک میں آمد کو روکنے میں ناکام رہا تھا، جس کی وجہ سے 2009 میں 262 لوگ متاثر ہوئے۔ حکومت پاکستان کی وائرس کی روک تھام میں ناکامی کی وجہ سے آخر کار پاکستان سے پولٹری امپورٹ کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

پاکستان میں فلو کا آنا اور بڑے پیمانے پر پھیلنا اس بات کا ثبوت تھا، کہ حکومتی دعوں کے برعکس بندرگاہوں، ائرپورٹس، اور زمینی راستوں پر بیماریوں کا پتا لگانے کے کوئی انتظامات موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ٰIHR 2005 کی سفارشات پر عمل کرنا نا ممکن تھا۔

اس کے علاوہ پاکستان ان ممالک کی لسٹ میں شامل ہے، جو پولیو وائرس ایکسپورٹ کر سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان سے باہر جانے والے تمام پاکستانیوں کو، اور چار ہفتوں سے زیادہ وقت کے لیے پاکستان آنے والے لوگوں کو پولیو کے قطرے پینے اور ویکسنیشن کرانی پڑتی ہے۔

اس سب سے بیماریوں کا پتا لگانے، اور وباؤں کی روک تھام میں پاکستان کی ناکامی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ Infectious Disease Management کی پاکستان میں حالت زار پر عالمی برادری کی جانب سے بار بار دی جانے والی وارننگز کے باوجود پاکستان IHR 2005 کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں پیچھے ہے۔

IHR کے تحت تمام ملکوں کو وبائی بیماریوں کا جلد سے جلد پتا لگانے کے لیے Early Warning and Surveillance System کا نفاز کرنا ہوتا ہے، ملک میں تمام انٹری پوائنٹس پر چیکنگ کے نظام، اور ڈائیگنوسٹک، ٹیکنیکل اور لیبارٹری سسٹم کو بہتر بنانا، اور IHR کی ریگولیشنز پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک فوکل پرسن تعینات کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ان ذمہ داریوں میں سے کچھ کو پورا کرنے، جیسے نیشنل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کی نامزدگی کے علاوہ بھی ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔

تیاریوں میں اس کمی کی وجہ سے پاکستان کو ایبولا وائرس کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بہت کوششیں کرنی پڑیں گی۔ WHO کی جانب سے ڈکلیئر کی گئی اس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی نے مغربی افریقہ کے ممالک لائبیریا، سیرا لیون، گنی، اور نائجیریا میں کل 1200 افراد کی جانیں لی ہیں۔ پاکستان اور افریقی ممالک کے بیچ لوگوں کی آمد و رفت قابل ذکر ہے، جس کی وجہ سے اگر انٹری پوائنٹس پر فوراً کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، تو اس وائرس کے پاکستان میں پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ (انڈیا نے اس حوالے سے مغربی افریقہ سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ اور علیحدگی کے لیے خاطر خواہ اور تیز رفتار اقدامات کیے ہیں)۔

پاکستان میں مغربی افریقہ اور جنوبی امریکہ سے آنے والے مسافروں کی جانب سے بھرے گئے ہیلتھ فارم قوانین کی پاسداری کے زمرے میں نہیں آ سکتے، کیونکہ زیادہ تر کیسز میں امیگریشن افسران یا تو بھرے ہوئے فارم نظر انداز کر دیتے ہیں، یا پھر ہاتھ میں لیتے ہی پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، وباؤں سے متاثرہ علاقوں سے آنے والے لوگوں سے ڈیل کرنے کے لیے کوئی ہیلتھ ڈیسک موجود نہیں ہیں۔ اس طرح کی حالت کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ پاکستان ہیلتھ ایڈوائزری جاری ہونے کے باوجود ایبولا وائرس کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے۔

مسئلے کی بڑی وجہ IHR 2005 کی پابندی نہ کرنا ہے۔ حکومت نے بھلے ہی کچھ نمائشی اقدامات کیے ہیں، لیکن خود کو ریگولیشنز کا مکمّل پاسدار ثابت کرنے کے لیے پاکستان کو بہت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے IHR 2005 کی تمام شرائط کی پابندی کے لیے مزید دو سال کا وقت مانگا ہے۔ اس ہلاکت خیز طرز عمل کی وجہ سے پاکستان میں صحت کی ڈینگی، خسرہ، پولیو، اور کانگو وائرس کی وجہ سے پہلے سے ہی تشویشناک صورتحال اور زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈویلپمنٹ کنسلٹنٹ اور پالیسی تجزیہ کار ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں