پشاور: خیبر پختونخوا کے گورنر کا سیکریٹریٹ کئی دہائیوں کے بعد وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے پولیٹیکل ایجنٹوں کو ان کے اخراجات کے محاسبے کے لیے اقدام کرسکتا ہے۔ طویل عرصے سے یہ اقدام اب تک غیر مؤثر ہے، اور نگرانی کا مجوزہ نظام صرف کاغذات پر ہی موجود ہے۔

طویل عرصے سے فاٹا میں آنے والے لاکھوں روپے کی مالیت کے سامان پر وصول کیے گئے محصول کو حساب کتاب کے لیے کھولا نہیں گیا ہے۔

قبائلی علاقے کی سیاسی انتظامیہ اکثر بدعنوانی، اختیارات کا غلط استعمال اور فنڈز کی خرد برد کے الزامات عائد کے جاتے رہے ہیں۔

ایجنسی کے پولیٹیکل ویلفیئر فنڈ (اے پی ڈبلیو ایف) کے معاملے میں پولیٹیکل ایجنٹ کو وسیع صوابدیدی اختیارات دے رکھے ہیں، جو اس حوالے سے اپنی مرضی کا مالک ہے کہ اس کو جہاں چاہے خرچ کرے۔

گورنر خیبر پختونخوا کے سیکریٹیریٹ نے ایک نوٹیفکیشن 14 اپریل 2014ء کو جاری کیا تھا، جس میں فاٹا کے سول سیکریٹیریٹ سے کہا گیا تھا کہ وہ نگرانی کا ایک نظام قائم کرے جو اے پی ڈبلیو ایف کی لین دین کی کھلی جانچ پڑتال کرسکے۔

یہ نیا طریقہ کار طویل غور و خوض کے بعد فنڈز کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

تاہم یہ پولیٹیکل انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کے لیے ایک اقدام اُٹھانے میں چھ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا، اب بھی نگرانی کے نطام میں خلاءموجود ہے، جس استحصال کا راستہ چھوڑ دیا ہے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) جو نگرانی کے اس نظام کی دیکھ بھال کرے گا، اس کو بھی اس کے متعلق تحفظات ہیں، کہ یہ قوانین اب بھی غبن کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں، خاص طور پر رول نمبر پانچ کا کہنا ہے کہ ’’تاہم مخبروں کو ادائیگی اور سیکیورٹی سے متعلق اخراجات کی صورت میں وصول کنندہ کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی۔‘‘

اے پی ڈبلیو ایف کی رقم کے غلط استعمال کے الزمات پر مبنی رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد نیب کے حکام نے مداخلت کی تھی، یہ رقم مختلف قبائلی ایجنسیوں خصوصاً خیبر ایجنسی میں راہداری کے ذریعے اکھٹا کی جاتی ہے۔

اے پی ڈبلیو ایف کی رقم جمع کرنے اور اس کے اخراج اور غبن کو روکنے کے لیے ایک طریقہ کار کی تیاری کا معاملہ گورنر سیکریٹیریٹ اور ریاست اور سرحدی علاقوں کی وفاقی وزارت کے سامنے اُٹھایا گیا تھا۔

جب فاٹا کے لاء اینڈ آرڈر سیکریٹری شکیل قادر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کے روز پشاور میں پولیٹیکل ایجنٹوں کی ماہانہ کانفرنس کے دوران اس معاملے پر بحث کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ گورنر کا حکم عملدرآمد کے مرحلے میں ہے، اور اس عمل کا آغاز موجودہ مالی سال کے دوران کردیا گیا تھا۔

سیکریٹری نے تسلیم کیا کہ اس حکم پر عملدرآمد میں کچھ رکاوٹیں تھیں، تاہم انہوں نے تیزی سے کہا کہ سیکریٹیریٹ اس پر عملدرآمد کررہا تھا۔

جبکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ گورنر کے حکم پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور پرانا طریقہ کار اب بھی موجود ہے۔

راہداری کے وصول کنندگان براہِ راست پولیٹیکل ایجنٹ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروا رہے ہیں یا پولیٹیکل محرر کو براہِ راست نقد ادائیگی کررہے ہیں۔

خیبر، مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں کے کاروباری افراد کے پس پردہ انٹرویوز میں انہوں نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے متعلقہ پولیٹیکل ایجنٹ کے باضابطہ اکاؤنٹ میں کراس چیک کے بجائے نقد رقم جمع کرائی تھیں۔ پارہ چنار، جو کرم ایجنسی کا ہیڈکوارٹر ہے، یہاں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعلقہ پولیٹیکل محرر کو راہداری کے اجازت نامے کے لیے نقد ادائیگی کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں