ملائیشین طیارے کو تیز رفتار چیزوں سے نشانہ بنانے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2014
یک اگست 2014 کو لی گئی اس تصویر میں یوکرین میں گرنے والے ملائیشین طیارے کے ملبے کے پاس تقفتیش کار موجود ہیں۔ فوٹو اے پی
یک اگست 2014 کو لی گئی اس تصویر میں یوکرین میں گرنے والے ملائیشین طیارے کے ملبے کے پاس تقفتیش کار موجود ہیں۔ فوٹو اے پی

ہیگ: ملائیشیا کے تباہ شدہ طیارے کے حوالے سے نئی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طیارے کو متعدد تیز رفتار اجسام سے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد وہ فضا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

ہالینڈ کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملائیشین ایئرلائن کی جانب سے چلائے جانے والے جہاز ایم ایچ 17 کو باہر سے انتہائی تیز رفتار چیزوں یا اجسام سے نشانہ بنایا گیا جس سے طیارے کو باہر سے شدید نقصان پہنچا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے بعد طیارے کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا اور وہ فضا میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

ڈچ سیفٹی بورڈ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طیارے کی تباہی میں کسی قسم کی تکنیکی یا انسانی غلطی کے شواہد نہیں ملے۔

یاد رہے کہ 17 جولائی کو شمالی مشرقی یوکرین میں روسی سرحد کے قریب ملائیشیا کے مسافر طیارے کو حملہ کر کے مار گرایا گیا تھا جس سے جہاز میں سوارعملے اور مسافروں سمیت تمام 295 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

طیارہ ایمسٹرڈیم سے کوالالمپور جا رہا تھا اور اس میں زیادہ تر ڈچ مسافر سوار تھے۔

واضح رہے کہ یہ حادثہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا تھا جب یوکرین اور روس کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ تھے اور یوکرین اور مغربی ملکوں نے روس نواز باغیوں پر طیارہ گرانے کا الزام عائد کیا تھا۔

تاہم روس نے اس واقعے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی تردید کرتے ہوئے طیارہ گرانے کا الزام یوکرین کی حکومتی افواج پر عائد کیا تھا۔

واضح رہے کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے ایک دن قبل یورپی یونین نے کہا تھا کہ وہ روس کے اپنی مغربی ملک کے ساتھ تنازع میں ملوث ہونے اور ایم ایچ 17 کی ہلاکتوں سمیت 3 ہزار سے زائد افراد کے لقمہ اجل بننے پر روس پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری میں طیارے کے بلیک باکس، جائے وقوعہ سے لی گئی ویڈیوز اور تصاویر اور یوکرین ایئر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے فراہم کی معلومات سے مدد لی گئی۔

حادثے کے فوراً بعد فارنزک ماہرین لاشوں کے معائنے اور ان کی شناخت کے لیے جائے حادثہ کا دورہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے لیکن علاقے میں شدید لڑائی کے باعث انہیں واپس لوٹنا پڑا۔

ہلاک ہونے والوں میں سے ابھی تک صرف 193 افراد کی شناخت ہو سکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں