جب دونوں دشمن ڈوبیں گے

12 ستمبر 2014
دونوں ممالک کشمیرکے سیاسی مسئلے پر اگلے 67 سال ضائع کر سکتے ہیں، پر جب موسمی آفات اپنا رنگ دکھائیں گی، تو کہاں چھپیں گے؟ — خاکہ طاہر مہدی
دونوں ممالک کشمیرکے سیاسی مسئلے پر اگلے 67 سال ضائع کر سکتے ہیں، پر جب موسمی آفات اپنا رنگ دکھائیں گی، تو کہاں چھپیں گے؟ — خاکہ طاہر مہدی

میری بیٹی نے اسکول سے واپس آتے ہی انتہائی اضطراب کی حالت میں مجھ سے پوچھا۔

"آخر انڈیا ہمارے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟"

اس نے یہ سوال کچھ اس انداز میں پوچھا، جیسے میں انڈیا کا سفیر ہوں۔ اس نے تقریباً چیخ کر کہا، "انہوں نے ہمارے پورے ملک کو ڈبو دیا ہے"۔

میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وسطی اور شمال مشرقی پنجاب میں سیلاب دو مغربی دریاؤں جہلم اور چناب سے آیا ہے، اور اس میں انڈیا کا کوئی ہاتھ نہیں۔ "یہ ان شدید بارشوں کی وجہ سے ہے، جنہوں نے سڑکوں کو اس قدر ڈبو دیا تھا کہ آپ دو دن تک اسکول بھی نہیں جا سکیں تھیں"۔

لیکن میری مزید دلیلیں اسے قائل کرنے میں ناکام رہیں۔

"ہندوستانی جانب کے کشمیر میں بھی ہماری ہی طرح شدید سیلاب آیا ہے۔ یہ قدرتی طور پر ہماری طرف بہتا ہے۔ بیٹا یہ قدرت اور جغرافیے کی وجہ سے ہے، اور اس میں سیاست کا لینا دینا نہیں ہے"۔ میں اب اپنی معلومات کو اپنا دفاع کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔

لیکن وہ اب بھی مکمل طور پر قائل نہیں تھی۔

یہ ظاہر تھا کہ اس دن اس کے اسکول کے اساتذہ اور ہم جماعتوں نے سیلاب پر بحث کی تھی۔ "اچھا ٹھیک ہے میں عامر خان کو لکھوں گا، کہ وہ اپنی حکومت کو مجبور کرے کہ اضافی پانی پاکستان کی جانب نا چھوڑا جائے"۔

بات ہنسی میں ختم ہوگئی، لیکن مجھے اسے یہ سمجھانے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑی کہ میں انڈیا کا دفاع کرنے کے بجائے صرف حقائق بیان کر رہا ہوں۔

مجھے بالکل ایسا ہی ایک اور جھٹکا کچھ دن پہلے تب لگا تھا، جب میں اپنے آفس کی ملازمہ سے رسمی بات چیت کر رہا تھا۔ وہ اوکاڑہ میں اپنے گاؤں میں عید منا کر واپس آئیں تھیں۔

علیل والدہ، اور خانہ بدوش قسم کے بھائی کے علاوہ ان کے پاس ایک اور پریشانی تھی۔ "زراعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، کینالوں میں پانی نہیں ہے"۔

میں نے پوچھا، "پانی کہاں گیا؟"۔

"انڈیا نے سارا پانی روک لیا ہے"۔

اس نے یہ بات کچھ ایسے اعتماد سے کہی، کہ مجھے لگا جیسے وہ خود انڈیا نامی ایک ڈریگن کو پاکستان کے سارے دریاؤں کا پانی پیتے ہوئے دیکھ آئی ہیں۔ لیکن انہوں نے کسی زمیندار کو آبپاشی اہلکاروں کی مدد سے پانی چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔


مزید پڑھیے: پانی کی کمی اور پاکستان کا مستقبل


نفرت کی اس نئی قسم، جس میں پاکستان کے پانی کے تمام مسائل کا ذمہ دار انڈیا کو ٹھرایا جاتا ہے، کو پاکستان میں خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔

لیکن اس کے مد مقابل دلیل اتنی زیادہ تکنیکی ہے، کہ کسی عام شخص کی سمجھ سے باہر ہے۔ اس سے زیادہ آسان فہم جماعت الدعوۃ کی گاڑیوں پر لگی وہ تصویر ہے، جس میں ہندوستانی اور پاکستانی جانب کے راوی کا موازنہ کیا گیا ہے، اور اس تصویر میں پاکستانی دریا بالکل خشک نظر آرہا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے ہماری اس نفرت پر مبنی ہے، جو دہائیوں سے جاری مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہے۔ اور اب اسے ریجن میں پانی کے بہاؤ تک پھیلایا جا رہا ہے۔


مزید پڑھیے: آبی مسائل کا ذمہ دار ہندوستان یا خود پاکستان؟


مسئلہ کشمیر اس نسل کے لیے تو حقیقی مسئلہ تھا، جس نے پاکستان کو اپنے سامنے بنتے ہوئے دیکھا، کیونکہ اس وقت مذہبی بنیادوں پر علاقوں پر دعویٰ کرنا سیاسی طور پر درست تھا۔ لیکن اس کے بعد کی نسل کے لیے یہ توجہ کا مرکز اس لیے بنا، کیونکہ پاکستانی قومیت کا تصور ہمہ گیر اسلامی دنیا کے تصور پر قائم ہے۔

1980 میں ہماری توجہ مغربی سرحدوں کی جانب ہوگئی، اور جب تک ہماری توجہ وہاں سے واپس آئی، تب تک عالمی رائے میں آزادی کی جدوجہد دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے نظریات سے گڈ مڈ ہوگئی تھی۔

پچھلے 67 سال میں ہم نے کشمیر پر جنگیں لڑیں، دراندازی کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کی، مذاکرات کیے، معاہدوں پر دستخط کیے، لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا۔

نئی نسل کے لیے مسئلہ کشمیر صرف ایک قومی رسم بن کر رہ گیا ہے، جس کا کوئی سیاسی مطلب نہیں ہے۔ میڈیا بھی اب مسئلے کے طوالت سے تھک چکا ہے۔ اب اس مسئلے کو وہ توجہ نہیں ملتی جو 1990 کی دہائی میں ملا کرتی تھی۔ اس مسئلے کو زندہ رکھنے کے لیے بہت کوششیں کی جاتی رہی ہیں، لیکن اب یہ تنازعہ ایک عام پاکستانی کے لیے کافی مبہم اور دور کی کوڑی بن چکا ہے۔

لیکن ہمارے پانی کے مسائل حقیقی ہیں، اور عام آدمی ان سے خاصا تعلق رکھتا ہے، اور انکا ذمہ دار انڈیا کو ٹھہرا کر نفرت کا ایک سیلاب لایا جا سکتا ہے۔

موسمی آفات اپنے شمار اور شدت میں بڑھتی جا رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا کا مستقبل تاریک ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئر پگھل کر غائب ہوجائیں گے، جس کی وجہ سے سیلاب آئیں گے، بارشوں کا معمول تبدیل ہوجائے گا، اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے صرف غریبوں کو نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ اس سے غربت اور بڑھے گی۔

تو اس طرح کی مبینہ صورت حال میں ہمارے بااختیار لوگ دشمن کو قدرت کے ساتھ مل کر سازش کرنے پر مورد الزام ٹھہرانے کے علاوہ اور کیا کریں گے؟


مزید پڑھیے: ماضی سے سبق نہیں سیکھا گیا


مغربی برصغیر میں سب سے شدید موسمی آفات کشمیر میں آئیں گی، اور یہ کوئی بین الاقوامی سرحد، کوئی لائن آف کنٹرول نہیں دیکھیں گی۔ دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

لیکن حالیہ صورتحال تو امید افزاء نہیں ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان شدید مشکلات کے دور میں بھی باہمی تعاون کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

کشمیر نے اپنی حالیہ تاریخ میں سب سے بڑی آفت اکتوبر 2005 میں دیکھی، جب ایک خوفناک زلزلے نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا۔ پوری دنیا پاکستان کی مدد کرنے کے لیے دوڑ پڑی۔ لیکن دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون صرف رسمی طور پر اور احتیاط سے جاری کیے گئے بیانات سے آگے نہیں بڑھا۔ یہ بیان بھی صرف عالمی برادری کو دکھانے کے لیے کیے گئے، جیسا کہ اب حالیہ سیلاب کے بعد کیا جا رہا ہے۔

کیوبا جیسے دور دراز ملک سے بھی ڈاکٹروں کی ٹیم پاکستان آئی، لیکن ساتھ والے ملک کے ڈاکٹروں کو ویزا جاری نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے اپنے ہیلی کاپٹر دینے کی پیشکش کی، لیکن ہندوستان کا اصرار تھا کہ ہیلی کاپٹر ہندوستان کے پائلٹ اڑائیں، جس پر پاکستان راضی نہیں ہوا۔ پاکستان نے لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب 1 کلومیٹر کی ممنوع فضائی حدود میں نرمی کی درخواست کی۔ ہندوستان مان گیا لیکن ہر اڑان کو پیشگی اجازت سے مشروط کر دیا۔

لیکن دونوں ملکوں نے عالمی برادری کے سامنے خوب دکھاوا کیا۔ انہوں نے بٹے ہوئے کشمیری خاندانوں کو لائن آف کنٹرول کراس کرنے کی اجازت دینے کے لیے کئی پروپوزل پیش کیے۔ دفتر خارجہ کے افسران نے اس تعاون پر سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے کئی دنوں تک کام کیا، اور اس کے بعد اسلام آباد میں ایک طویل اجلاس کے بعد 30 اکتوبر کو کشمیریوں کو لائن آف کنٹرول پار کرنے میں مدد کے لیے پانچ چیک پوسٹس کے قیام کا اعلان کیا۔

زلزلے کے 43 ویں دن 20 نومبر 2005 کو 24 پاکستانی کشمیری ایسی ہی ایک چیک پوسٹ سے پاکستان واپس آئے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو زلزلے کے بعد سرینگر-مظفرآباد بس سروس معطل ہوجانے کے باعث دوسری طرف پھنس گئے تھے۔ اس کے علاوہ کسی کو بھی سیکورٹی کلیئرنس نہیں ملی۔ تعاون کی کتنی زبردست مثال ہے۔

پاکستان اور ہندوستان اپنی ہمالیہ جتنی بلند انا پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں، اور جب دباؤ پڑے تو یا تو نمائشی اقدامات کرنے لگتے ہیں، یا پھر عالمی برادری کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے بیانات جاری کرنے لگتے ہیں۔

دونوں ممالک کشمیرکے سیاسی مسئلے پر اگلے 67 سال ضائع کر سکتے ہیں، لیکن جب موسمی آفات اپنا رنگ دکھائیں گی، تو کہاں چھپیں گے؟ اور یہ بات سمجھ لینی چاہیے، کہ موسمی آفات 67 سال مکمل ہونے سے بہت پہلے معمول بن جائیں گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں