صحافت پر حملہ

13 ستمبر 2014
اسلام آباد میں جاری ڈرامہ سیاست کو بیہودگی کی حد تک لے آیا ہے، اور میڈیا کو الزامات سے بری نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اسلام آباد میں جاری ڈرامہ سیاست کو بیہودگی کی حد تک لے آیا ہے، اور میڈیا کو الزامات سے بری نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے صحافی ایک بار پھر خود خبر بن رہے ہیں۔ کوئٹہ میں وہ اپنے صحافی بھائیوں کے بے رحمانہ قتل کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے حکام سے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن اسلام آباد میں وہ ایک کم قابل تعریف مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دونوں ہی صورتوں میں یہ واضح ہے کہ ملک میں صحافیوں کو کس قدر خطرات کا سامنا ہے۔ اس سے ان سب لوگوں کو تشویش ہونی چاہیے، جو صحافیوں کی جانب سے عوام کو آگاہ کرنے، اور عوام کے آگاہی حاصل کرنے کے حق پر یقین رکھتے ہیں۔

رپورٹنگ انڈر تھریٹ (Reporting Under Threat) کے عنوان سے کی گئی ایک تحقیق میں پاکستان کی صحافی برادی کو ملنے والی دھمکیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ عدنان رحمت نے ان 57 صحافیوں کے حالات کا تجزیہ کیا ہے، جنہیں یا تو قتل کی دھمکیاں ملیں، یا پھر انہیں جان کے خطرات کا سامنا رہا ہے۔ 48 صحافیوں نے اپنی روئیداد خود سنائی، جبکہ 9 مرحوم صحافیوں کی کہانی ان کے دوستوں نے سنائی۔

اگر ان 57 کہانیوں کو علاقائی لحاظ سے تقسیم کیا جائے، تو اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ ہدف بننے والے 18 صحافیوں کا تعلق سندھ سے ہے۔ کراچی میں غنڈہ راج ہونے کے باعث یہ تعداد قابل فہم ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا نمبر ہے، جہاں 17 صحافیوں نے ان خطرات کا سامنا کیا۔ لیکن اگر بلوچستان سے جاری ہونے والے اخبارات، اور وہاں موجود صحافیوں کی تعداد دیکھی جائے، تو اس کے مقابلے میں 17 کا ہندسہ سب سے خطرناک ہے۔

اس کے بعد خیبر پختونخواہ کا نمبر ہے، جہاں سے 9 واقعات رپورٹ ہوئے، پنجاب سے 5، قبائلی علاقوں سے 4، اسلام آباد سے 3، اور افغانستان سے ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ مقتول صحافیوں میں سے 3 کا تعلق بلوچستان، 3 کا خیبر پختونخواہ، اور 2 کا قبائلی علاقوں سے تھا۔ پنجاب، جہاں ملک کے کسی بھی دوسرے حصے کے مقابلے میں صحافی برادری زیادہ تعداد میں موجود ہے، وہاں سندھ اور بلوچستان کے ایک تہائی سے بھی کم واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے، کہ یا تو صوبائی حکام نے میڈیا کو مطمئن رکھنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے، یا پھر سچ کو دبانے والی قوتوں نے صحافیوں کو دھمکیاں دیے بغیر اپنا مقصد حاصل کرنا سیکھ لیا ہے۔

ان روئیدادوں سے ہمیں ان حالات کا بالکل پتہ نہیں لگ سکتا، جن کے تحت سنہ 2000ء سے اب تک 200 سے زیادہ صحافیوں کی جانیں گئیں ہیں، لیکن پھر بھی ان سے اتنا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے، کہ پاکستان کے صحافیوں کو کس طرح کی دھمکیاں کن لوگوں کی جانب سے ملتی ہیں۔ اقتدار میں موجود سیاستدان، سیکورٹی ایجنسیاں، اور پولیس ان حقائق کی اشاعت بالکل برداشت نہیں کر سکتیں، جس سے انہیں کوئی خطرہ لاحق ہو۔

اسی طرح جنگجو اور انتہا پسند تنظیمیں، اور جرائم پیشہ گروہ میڈیا کے لوگوں سے تابعداری چاہتے ہیں۔ یہ سب اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ صحافیوں کو قید کر کے یا تشدد کر کے انہیں جھکا سکیں، یا انہیں اپنا پیشہ چھوڑنے پر ہی مجبور کر دیں۔

اپنے پیشے سے وفادار کوئی بھی صحافی حق اور سچ کو دبانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بن سکتا، اور اس تحقیق سے واقعی صحافیوں کی جانبازی ثابت بھی ہوتی ہے۔ لیکن معاشرے کے لیے اس سے بھی زیادہ خطرناک چیز قانون نافذ کرنے والوں اور قانون توڑنے والوں کے صحافیوں سے جھوٹ اور آدھا سچ رپورٹ کرنے کے مطالبے ہیں۔

ان جگہوں پر حالت مزید خراب ہوتی ہے، جہاں صحافیوں کو متاثرہ علاقے اور لوگوں تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سیکورٹی فورسز یا جنگجوؤں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔ کتنے لوگ مارے گئے، ان کی شناخت کیا تھی، اور طاقت کا استعمال کس حد تک ناگزیر تھا۔ یہ وہ سوال ہیں، جن کے بارے میں لوگ صرف اندازے لگا سکتے ہیں۔ جن خطرات کا پاکستانی صحافیوں کو سامنا ہے، وہ یہ کہ ان کو کس طرح غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

صحافی صرف صحافت کے پیشے کے ان دشمنوں کے نشانے پر نہیں ہوتے، بلکہ بسا اوقات انہیں اپنی برادری کے لوگوں سے بھی خطرہ ہوتا ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کے آرٹ نے کافی ترقی کی ہے۔ اس کو میڈیا، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی اسلام آباد دھرنوں کی کوریج میں دیکھا جا سکتا ہے۔

سیاسی ماہر اقتصادیات اکبر زیدی یہ کہنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں، کہ دھرنے اسی وقت ختم ہوجائیں گے جس وقت ٹی وی چینل کوریج دینا بند کردیں، لیکن ان کا پیش کردہ یہ حل اظہار رائے کی آزادی کے آڑے آتا ہے، جس کے تحت میڈیا کو ملک بھر میں ہونے والے کسی بھی واقعے کو رپورٹ کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن جس طرح میڈیا نقصاندہ خبریں اور اسکینڈل پیش کیے جارہا ہے، اس کی پاکستانی صحافت میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ میڈیا کے کردار پر اسی طرح کا حملہ ہے، جس طرح کا حملہ حامد میر اور سلیم شہزاد پر کیا گیا تھا۔

حکومت، سیاسی جماعتیں، جنگجو، حتیٰ کہ زمینوں پر قبضے کرنے والے لوگ بھی بیانات جاری کر سکتے ہیں، پمفلٹ بانٹ سکتے ہیں، یا الیکٹرانک میڈیا پر وقت خرید سکتے ہیں۔ لوگوں کو یہ معلوم رہے گا کہ کون کیا کہہ رہا ہے، اور دیے گئے پیغام کے اوپر "سچ" کا لیبل نہیں ہوگا، جسے صرف اچھے تشخص کے مالک صحافی جاری کر سکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ میڈیا ہاؤسز یا صحافیوں کو کسی سیاسی گروہ کا ساتھ دینے کا حق نہیں ہے۔ لیکن پارٹی کے اپنے عناصر، اور جانبدار پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے بھی فیئر پلے کے کچھ ضوابط ہیں۔ وہ اپنے پسندیدہ گروہ یا شخصیات کو زیادہ ایکسپوژر دے سکتے ہیں، اور اپنے مخالفین کو کم۔ لیکن محتاط ناظرین کے لیے اس کی پہچان کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ اپنے سیاسی مخالف کے ایکسپوژر اور اسکینڈلائز کرنے کے درمیان فرق واضح رہنا چاہیے۔ اسلام آباد میں جاری ڈرامہ سیاست کو بیہودگی کی حد تک لے آیا ہے، اور میڈیا کو الزامات سے بری نہیں کیا جاسکتا ہے۔

میڈیا کو مختلف مفادات رکھنے والے گروہوں کی جانب سے حقائق کو مسخ کرنے کے پریشر کا سامنا رہتا ہے۔ جب تک سیلاب نہیں آیا، میڈیا کا پورا فوکس اسلام آباد پر رہا جیسے کہ ملک میں صرف یہی ایک مسئلہ ہے۔ ٹی وی کا وقت اور اخباروں کی جگہ پر عوام کا حق ہے، اسے ذاتی مخاصمت کے لیے استعمال کرنا اتنا ہی نقصاندہ ہے، جیسے کوئٹہ کے کسی صحافی کو کوئی جنگجو اپنی مرضی کی رپورٹنگ کا حکم دے۔

ایک طرح سے میڈیا کے مسائل پاکستانی سیاست کا مظہر ہیں۔ پبلک اسپیس پر مافیا کا قبضہ، کچھ ہتھیاروں سے لیس اور کچھ زہر سے۔ اور اس سب میں عوام کے حقوق اور سچائی کی کسی کو فکر نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں