انڈین انٹیلی جنس اداروں میں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2014
ہندوستان کے قیام کو چھ دہائیوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مسلمانوں کی ہندوستان کے ساتھ وفاداری کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی
ہندوستان کے قیام کو چھ دہائیوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مسلمانوں کی ہندوستان کے ساتھ وفاداری کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی

نئی دہلی: کانگریس آئی کی قیادت میں یوپی اے کی دوسری مدت اقتدار کے تیسرے سال کے دوران وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایس پی جی، را اور آئی بی کے کچھ سابق اور حاضر سروس افسران کی ایک میٹنگ بلائی۔

اجلاس میں منموہن سنگھ کے ساتھ سونیا گاندھی بھی موجود تھیں۔ اس میٹنگ میں منموہن سنگھ نے حکام سے کچھ سوالات پر ان کی رائے جاننی چاہی، کہ کیا انڈین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں مسلم کمیونٹی کے لوگوں کی نمائندگی میں اضافے کے سلسلے میں کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے؟ کیا را میں مسلمانوں کو شامل کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے؟ کیا ایس پی جی میں سکھوں اور مسلمانوں کی بھرتیوں پر عائد پابندی کو ہٹانے پر غور کیا جاسکتا ہے؟

منموہن سنگھ کے ان سوالات پر رائے ظاہر کرتے ہوئے حکام نے کہا کہ ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن اس میں خطرہ بہت بڑا ہے۔ سالوں سے چلے آ رہے سسٹم کو تبدیل کرنے سے اگر کچھ گڑبڑ ہوئی تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ بالآخر اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے اس معاملے پر مزید غور کرنے کی ہدایت دے کر میٹنگ ختم کر دی۔

لیکن پھر کبھی اس کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ منموہن سنگھ جس معاملے پر ان افسران کے ساتھ تبادلۂ خیال کر رہے تھے وہ ہندوستان کی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں سے منسلک ایسی تلخ حقیقت ہے، جس پر ہندوستان میں کبھی کوئی کھل کر بحث نہیں کرتا۔

حقیقت یہ کہ ہندوستان کی آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں مسلمانوں کے لیے نو انٹری کا بورڈ لگا ہوا ہے اور ایس پی جی (اسپیشل پروٹیکشن گروپ) اور این ایس جی (نیشنل سیکورٹی گارڈ) میں سکھوں اور مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

را کے ایک سابق افسر کہتے ہیں ’’یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ 1969ء میں اپنے قیام سے لے کر آج تک را نے کسی مسلم افسر کی تقرری نہیں کی ہے۔ اگرچہ اس کی اپنی وجوہات ہیں۔ ‘‘

ایک سینئر آئی پی ایس افسر اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ابتداء میں ایک خفیہ کوڈ تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں خاص طور سے حساس عہدوں پر مسلمانوں کا تقرر نہیں کیا جاتا تھا۔ یہی غیر تحریر شدہ اصول اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے لیے بھی مخصوص ہو گیا۔‘‘

1984ء میں قائم ہونے والی ایس پی جی سے وابستہ ایک سابق افسر تہلکہ ڈاٹ کام سے بات چیت کے دوران کہا ’’یہ درست ہے کہ سکھ اور مسلمانوں کو وی وی آئی پی سیکورٹی پر تعینات نہیں کیا جاتا۔ ماضی میں ہم نے سیکورٹی سے متعلق مختلف معاملات کی وجہ سے ہی ملک کے وزرائے اعظم کے قتل ہوتے دیکھے ہیں۔ ایس پی جی سیکورٹی کا آخری گھیرا ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی طرح کا کوئی خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ میڈم اندرا گاندھی اور راجیو جی کے قتل کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔‘‘

را اور ایس پی جی کی طرح ہی این ٹی آر او (نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن) نے بھی کسی مسلمان افسر کو اپنے یہاں بھرتی نہیں کیا۔ کچھ ایسا ہی حال ملٹری انٹیلی جنس (MI) کا بھی ہے۔

ایم آئی کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’’اب اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ برسوں سے چلی آرہی یہ روایت اب مضبوط ہو چکی ہے۔ اب اس میں کسی کو کچھ عجیب نہیں لگتا۔‘‘

میڈیا سے بات چیت کے دوان اس حقیقت کچھ مزید واضح کرتے ہوئے را کے سابق خصوصی سیکرٹری امر بھوشن کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو حساس اور اسٹریٹجک جگہوں سے جان بوجھ کر دور رکھا جاتا ہے۔ اس کمیونٹی کے حوالے سے ایک تعصب موجود ہے۔‘‘

امر بھوشن کی بات کی تصدیق چند سال پہلے انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک خبر سے کی جاسکتی ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ سابق مرکزی تعلیم ہمایوں کبیر کے پوتے کی را میں بھرتی صرف اس بنیاد پر منسوخ کر دی گئی کیونکہ وہ مسلمان تھے۔

واضح رہے کہ ہمايوں کبیر ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے تقسیم کے وقت پاکستان جانے کے بجائے ہندوستان میں رہنا پسند کیا۔

ریٹائرڈ سینئر آئی پی ایس افسر ایس آر دارا پری بھی کہتے ہیں ’’ان اداروں میں تقسیم کے بعد سے ہی ایک فرقہ وارانہ تعصب قائم ہے۔ ان کی (مسلمانوں کی) حب الوطنی پر یہ ایجنسیاں شک کرتی ہیں۔‘‘

ایسا نہیں ہے کہ اس معاملے کے حوالے سے ان اداروں اور حکومت میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ را سے منسلک ذرائع بتاتے ہیں کہ طویل عرصے سے را میں بھرتیوں سے متعلق پالیسی پر ادارے کے اندر بحث چل رہی ہے، لیکن ایجنسی میں ہی ایک طبقہ ایسا ہے جو اس میں کسی طرح کی تبدیلی کا سخت مخالف ہے۔

را کے سابق سربراہ پی کے ٹھاكرن کے دور میں (2005-2007) اس معاملے پر کچھ کام ہوا تھا۔ ٹھاكرن نے ریکروٹمنٹ پالیسی کو بہتر بنانے اور اس میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اگرچہ اس کمیٹی کی نہ تو کبھی رپورٹ آئی اور نہ ہی پالیسی میں کوئی تبدیلی کی گئی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں این ڈی اے کے دور اقتدار میں بھی یہ معاملہ زیرِبحث رہا۔ ایک سینئر افسر کا کہنا ہے ’’کارگل جنگ کے پیش نظر ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس کو پورے انٹیلی جنس نظام پر رپورٹ تیار کرنی تھی کہ کیا اور کس طرح کی بہتری لائے جائے۔ اس وقت برجیش مشرا قومی سلامتی کے مشیر تھے۔ اس دوران اس بات پر بھی بحث ہوئی تھی کہ کس طرح سیکورٹی ایجنسیوں میں ایک مذہب خاص کے لوگوں کا غلبہ ہے اور ایک کمیونٹی کے لیے اس ادارے میں پابندی ہے۔‘‘

اس کمیٹی سے شامل ایک اہلکار کہتے ہیں ’’میں نے اس بارے میں برجیش مشرا سے بات کی تھی کہ کس طرح مسلمانوں کے لیے ہمیں انٹیلی جنس اداروں کے بند دروازوں کو کھولنا چاہیے تو وہ یہ بات سن کر زور سے ہنسے۔ پھر کہا بتائیے کسے رکھوا ئیں۔ آپ پریشان مت ہوئیے۔ صحیح مشورہ دیجیے، ایسا مشورہ مت دیجیے کہ آپ کی اور ہماری دونوں کی نوکری مصیبت میں آجائے۔‘‘

را کے ایک سابق افسر کا کہنا ہے کہ’’دیکھیے اس میں کسی کو ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ پہلے سے ایک نظام بناہوا ہے وہ بکھر جائے گا۔ جو کوئی بھی اس میں تبدیلی کرے گا اسے مستقبل میں ہونے والے خرابی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں مسلمانوں کو ایجنسیوں میں شامل کرنے کے خلاف ہوں۔ لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے۔ جب ملک کے لوگ ہی اسلامی دہشت گردی میں گرفتار ہو رہے ہوں تب ایسا سوچنا کسی بغاوت سے کم نہیں ہوگا۔‘‘

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی حب الوطنی اور اس کے اعتراف پر کیے جانے والے شکوک و شبہات کی وجہ سے ہی 1998ء میں آئی بی نے قومی سطح پر یہ سروے کروایا تھا کہ کیا مسلم کمیونٹی سے ملک کی داخلی سلامتی کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے؟

یاد رہے کہ 28 نکات پر مشتمل اس سروے میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ ​​کی حالت میں مسلمان ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا نہیں؟

یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک ہندوستان اور پاکستان دونوں ایٹمی تجربہ کر چکے تھے۔ ایسے میں سروے کے ذریعے یہ جاننے کی بھی کوشش کی گئی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان شروع ہوئی جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو مسلمان کس طرح دیکھتے ہیں۔

اس سروے میں کچھ اور سوال بھی تھے مثلاً کیا مسلم کمیونٹی نے پاکستان کے جوہری تجربے کی مخالفت کی تھی؟

پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر مسلمانوں کیا رد عمل تھا؟ مسلم امت کے اتحاد کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟

را کے سابق سربراہ آنند کمار ورما کہتے ہیں کہ دیکھیے جہاں سکیورٹی کا سوال اٹھتا ہے وہاں ضرورت سے زیادہ حساس ہونا پڑتا ہے۔ ایسے موقع پر نزدیک کے ہی نہیں بلکہ دور کے خطرات کے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے۔ اس لیے بھرتی کے وقت بہت توجہ دی جاتی ہے کہ کہیں فی الوقت نہ بھی سہی لیکن بعد میں تو کوئی خطرہ پیدا نہیں ہو جائے گا۔‘‘

تو کیا یہ مان لیں کہ مسلمانوں کو بھرتی کرنے کے حوالے سے کوئی تعصب انٹیلی جنس ایجنسیوں میں نہیں ہے؟ سابق سینئر آئی پی ایس افسر ایس آر داراپری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ ’’ان اداروں میں کچھ لوگوں کا اب بھی خیال ہے کہ ان کی وفاداری اُدھر (پاکستان کے لیے) ہو سکتی ہے۔ اسی لیے آئی بی میں جو حساس عہدے ہوتے ہیں، ان کو نہیں دیے جاتے، اسی وجہ سے انہیں را میں بھی بھرتی نہیں کیا جاتا۔‘‘

وفاداری کے سوال پر آئی پی ایس افسر اور انٹیلی جنس کی جوائنٹ کمیٹی کے سابق سیکرٹری كےكيدار والا ایک موقع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے انٹیلی جنس بیورو کے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا تھا کہ پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے والے ہندوستانی ایجنٹ کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، اس کا جواب تھا کہ زیادہ تر جاسوس اکثریتی سماج سے ہیں۔

اے کے ورما کے مطابق’’تقرری کرنے والے افسر میں تعصب ہو سکتا ہے لیکن یہ اس افسر کی اپنی انفرادی سوچ ہے۔ ایسی کوئی سرکاری پالیسی نہیں ہے۔ اب تقرری کرنے والا ہی تعصب سے بھرا ہوا ہے تو حکومت کیا کر سکتی ہے ۔‘‘

ورما مسلمانوں کی حب الوطنی پر شکوک و شبہات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ابتداء میں لوگوں کو اس طرح کے شکوک رہے ہوں گے، لیکن دیکھیے ہمارے وزیر داخلہ اور صدر بھی غیر ہندو رہ چکے ہیں۔ اب یہ تو بے حد حساس پوسٹ ہوتی ہیں۔ ان کا دخل سب جگہ رہتا ہے۔ ہاں یہ ایک حقیقت تو ہے ہی کہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کی وفاداری کس کی جانب ہے، مذہب کے لیے یا ملک کے لیے، تو میرا اندازہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہی کہیں گے کہ ان کی پہلی وفاداری تو مذہب کے ساتھ ہے۔ یہیں سے سوال پیدا ہوتا ہے۔‘‘

اپنے نکتہ نظر کو تفصیل سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’دیکھیے ان کے مذہب کے جو اصول ہیں، اس میں جو باتیں بتائی گئی ہیں، جنہیں ماننے کے لیے وہ مجبور ہیں ان کے مطابق انہیں ملک کا نہیں بلکہ امت کا وفادار ہونا چاہئے۔ اسی لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونے والے اور اسی ماحول میں پروان چڑھنے والے لوگ، جن کے بارے میں خیال کرنا چاہیے کہ وہ وہاں کی اقدار کو قبول کر لیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اس لیے نہیں ہو رہا ہے کیونکہ مسجد میں یا ان کی کمیونٹی کی جو مجلس ہوتی ہیں یا خاندان میں جو بحث ہوتی ہے اس میں ہمیشہ یہ بات اٹھتی رہتی ہے کہ آپ کو اپنے مذہب کے لیے ہمیشہ مخلص رہنا ہے۔ ان کا مذہب کہتا ہے کہ اگر کسی نے دین کو چھوڑ دیا تو کوئی بھی مسلمان اس کو جان سے مار سکتا ہے۔‘‘

مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے سوال پر آئی بی کے ایک افسر کا کہنا ہے ’’اس معاملے کو مذہب کی عینک سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ انٹیلی جنس میں کسی بھی افسر پر آنکھ بندكر کے یقین نہیں کیا جاتا۔ یہ ہندوؤں کے ساتھ ہر مذہب کے فرد پر لاگو ہوتا ہے۔‘‘ وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں’’ہمارے یہاں تمام حکام کے ماضی اور حال کا پورا حساب درج رہتا ہے۔ اس معاملے میں ہم پوری سختی برتتے ہیں۔ ایک افسر جو ہمارے یہاں آئے تھے انہوں نے ایجنسی جوائن کرتے وقت جو معلومات دی تھیں اس میں اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ ان کے نانا نے دو شادیاں کی تھی۔ ان کی دوسری نانی کے دونوں بیٹے آزادی کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ ان سے پھر کچھ اور نہیں پوچھا گیا۔ البتہ جس ریاست سے وہ آئے تھے انہیں وہیں واپس بھیج دیا گیا۔‘‘

ایک طرف جہاں ایجنسی کے افسران اس طرح کی مثالوں کی بنیاد پر اپنے فیصلے کو جائز ٹھہراتے ہیں وہیں دوسری طرف ایسے مسلمان اہلکار بھی ہیں جو اس طرح کے تعصب کو ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ایک سینئر آئی پی ایس افسر نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ لوگ ہمیں بھرتی نہیں کرنا چاہتے ہیں تو براہ راست کہہ دیں۔ یہ جان بوجھ کر کوئی نہ کوئی رشتہ کسی نہ کسی مسلم ملک سے نکال دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ تو حساس معاملہ ہے۔ آپ خود سوچیے کہ ہندوستان میں ایسا کون سا مسلمان ہوگا جس کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا پاکستان یا بنگلہ دیش میں نہیں ہو گا۔ ایک نسل پیچھے جائیں تو کوئی نہ کوئی اس پار کا نکل آتا ہے۔ بس اس بنیاد پر یہ اس افسر کو بلیک لسٹ کر دیتے ہیں۔‘‘

انٹیلی جنس ایجنسیوں سے منسلک ایسے افسران بھی ہیں جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ سالوں سے چلے آ رہے اس تعصب کو ختم کیا جانا چاہیے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح یہ غیر تحریر شدہ قوانین بالآخر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ہی نقصان پہنچاتے آرہے ہیں۔ آئی بی اور را دونوں سے مشرق میں منسلک رہے افسر بی رمن نے اپنی کتاب كاؤ بوائز میں مسلمانوں کے آئی بی اور را میں بھرتی ہونے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آؤٹ لک میگزین سے بات چیت میں را کے سابق سربراہ ایس دلت کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تقرری ناصرف ضروری ہے بلکہ وہ انتہائی اہم بھی ہے۔ ایک مسلم افسر ہی مسلم معاشرے کی نفسیات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔ کوئی غیر مسلم کتنا بھی دعویٰ کرے کہ وہ کمیونٹی کے بےحد قریب ہے وہ اس سماج کی باریکیوں کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتا، وہیں ایک مسلمان اپنی زبان اور ثقافت کی سطح پر ان سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔‘‘

کشمیر میں شدت پسندی کے انتہائی عروج کے دور میں مسلم افسران کا رول انتہائی اہم رہا تھا۔ ایک سینئر آئی بی افسر کہتے ہیں’’اس وقت ایک حکمت عملی کے تحت مسلم افسران کو وہاں بھیجا گیا تھا۔ اس کا بہت فائدہ ہوا۔ یہ افسر وہاں کے لوگوں کے درمیان زیادہ بہتر طریقے سے گھل مل گئے۔ وہ وہاں کے لوگوں کو مزید بہتر طریقے سے سمجھ سکتے تھے۔ آہستہ آہستہ مقامی لوگوں نے بھی ان افسروں پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا۔ ‘‘

(تہلکہ ڈاٹ کام کی تفصیلی رپورٹ کی تلخیص)

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں